ہم پرتشدد کیوں ہیں؟

10 ستمبر 2015
ہمارے پاس لڑائی جھگڑے میں چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں جو کبھی کبھی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔ — Frenzel/Creative Commons
ہمارے پاس لڑائی جھگڑے میں چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں جو کبھی کبھی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔ — Frenzel/Creative Commons

ہماری ہر دوسری بحث دھیمی آواز سے فوراً تیز تیز چِلانے اور پھر لاتوں اور گھونسوں کا روپ کیوں دھار لیتی ہے؟ ہماری ہر بحث تشدد کی طرف کیوں چلی جاتی ہے؟ لوگ لڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی کسی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور بات بڑھ جاتی ہے۔ کیا ہمارے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا ہمیں لگتا ہے کہ ہماری مؤثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟

پاکستان میں رہتے ہوئے میں نے بھی بارہا زبانی بیانی دلائل کے بجائے 'ٹھوس دلائل'، جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، ان کا استعمال کیا۔ میں لڑائی جھگڑے میں زیادہ باتوں کا قائل کبھی بھی نہ تھا، لیکن پردیس کے ان پانچ سالوں نے بہت باتیں سننے کا حوصلہ پیدا کر دیا ہے۔ میں نے تین چار دفعہ گوروں کو لڑتے دیکھا ہے، تو ان کی عمومی لڑائی یہ ہوتی ہے کہ اونچی آواز میں تیز تیز گفتگو کرتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، چہرہ ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک دوسرے کو غصے سے کہتے ہیں کہ 'مینوں ہتھ لا کہ تاں دکھا'، مگر کوئی کسی کو ہاتھ نہیں لگاتا اور لڑائی بغیر کسی پر ہاتھ اٹھائے ختم ہو جاتی ہے۔

لیکن ہماری لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ یورپی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر اس لیے پروان نہیں چڑھتا کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی، اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے، بچوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی، حتیٰ کہ ماں باپ بھی اس غیر انسانی عیاشی سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے غصے اور ناراضی کا اظہار صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ اسکولوں کالجوں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ آپ کی تربیت کے بہانے آپ کی ٹھکائی کرے، اس لیے بچوں کو اس مؤثر دلیل کے استعمال کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

اور ہمارے ہاں وگڑیاں تگڑیاں دا ڈنڈا پیر قسم کے محاورے ایک اہم مقام رکھتے ہیں اس لیے اس قسم کے آزمودہ جوہر سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے۔ جہاں کوئی سمجھنا نہیں چاہتا وہاں ڈنڈوں اور سوٹوں سے مدد لینا معمولی بات ہے۔

اپنی جاہلیت کے دور میں کسی مخالف کے دلائل کو عزت اور انا کی جنگ میں دشمن کے وار سمجھنا میرا بہت عام سا وطیرہ تھا۔ کئی ایک مہرباں آشناؤں سے بات تو تو میں میں سے گالیوں اور دھکم پیل سے بڑھ کر سر پھٹول تک بھی پہنچی۔ اب جب سے بالوں میں برف اتری ہے میرا لہجہ ٹھٹھر گیا ہے کے مصداق بہت سے ناگوار باتوں پر بھی دل کو بس یہ کہہ کر سمجھا لیتے ہیں کہ اب جہلاء سے کیا بحث کی جائے۔

لیکن تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے کمپیٹیٹر کہا جاتا ہے، اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔ اس درجے کی وضاحت کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے اجی چھوڑیے آپ کو کیا پتہ، مجھے سب پتا ہے وغیرہ۔

ایسے لوگ بدلہ لینے اور دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے اچھے ورکر ہوتے ہیں، آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں، جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے، ان سے 24 گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے۔

اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا بڑی عام سی بات ہے، گھور کر دیکھ رہا تھا، کسی گلی سے گزر رہا تھا، کھانس کر گزرا، پیٹھ پھیر لی، اور اس قماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا بھی گریبان پکڑا جا سکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جا سکتی ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپڑوں کے بغیر ہم بچوں کو کیونکر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے اسکول میں حکم منوانے کا اوزار ڈنڈا کیوں ہے؟ اور مخالفین کو دھونس، دھمکیوں، اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

بچپن سے ہی سمجھانے اور سکھانے کے ان طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوال بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری قوم پرتشدد کیوں ہے۔

جواب تو ہمارے سامنے موجود ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

SehAr KhAn Sep 10, 2015 05:33pm
Hamaray society main parwaresh ki bht kami hai..writer ne jin behavior ka tazkara kea hai yeh sub college k students mai main ne bht note kea hai...i am a lecturer ore hr dosray tesray din students ka aapas main chotii chotii bataon pe ladae start hojate hai.
123 Sep 10, 2015 05:47pm
batt tu sachi hia per baat hai Ruswai ki.
حسن امتیاز Sep 10, 2015 06:38pm
رمضان رفیق صاحب کا مضمون بہت اچھا ہے ۔ لیکن میری رائے میں ہمارے معاشرہ میں تشدد کی واحد وجہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں گھروں اور سکولوں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے ۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں ’’عدل‘‘ کا کوئی موثر نظام موجود ہی نہیں۔ مغربی معاشرے کے جس رویے کی بات ’’رمضان رفیق صاحب‘‘نے تحریر کی ہے ۔ ان سے میرے سوال ہے کہ اگر وہاں کوئی بچوں پر معمولی سا بھی تشدد کریں اور اس کی خبر پولیس کو ہوجائے تو کیا ہوتا ؟ جب کہ ہمارے ہاں کس بھی قسم کی صورت حال میں ’’ ریاست ’‘ آپ کی کوئی مدد نہیں کرتی ۔ جس سے لوگوں خود اپنا ’’قانون‘‘ نافذ کرتے ہیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 10, 2015 06:42pm
یہ سب عدم برداشت کی وجہ سے ہے۔ معاشرہ عدم برداشت میں جکڑا ہوا ہے۔ عدم برداشت کی وجہ آکڑ بھی ہوتی ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ تھلے لگے۔ ہر کوئی دوسرے پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ مخصوص مذہبی نکات کو پڑھانا اور برداشت کی تلقین کرنے والے نکات کو نہ پڑھانے کی وجہ سے بھی عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے خلاف ہر وقت کوئی نہ کوئی ایشو رکھنا بھی لوگوں میں عدم برداشت پیدا کرتا ہے۔ سر تن سے جدا، کافر کافر۔۔۔۔ جیسے نعرے انسانوں میں خلیج پیدا کرتے ہیں۔ ان نعروں کو روکنا ہو گا۔لیکن مسئلہ پھر وہیں آ جائے گا جیسے کہ ڈان بلاگ ڈیسک کے ایک قاری نے کہا تھا کہ تب کیا ہو گا جب حکومت، آئین، قانون خود ہی کسی کو کافر قرار دے دے ؟
رمضان رفیق Sep 11, 2015 04:57am
@حسن امتیاز عدل تو اعتدال سے ہٹ جانے کا ہی نام ہے، اور ہم بحثیت قوم میانہ روی سے دور ہو گئے ہیں، جی ہاں یہاں اگر حکومت کو پتا چل جائے کہ بچے پر تشدد ہوا ہے تو آپ کے بچے آپ سے لئے بھی جا سکتے ہیں۔ میرا مقصد اس بات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا ہے کہ ہم بات چیت اور بحث و مباحثہ کی اخلاقیات بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ اور کسی دوسری کی رائے کو سنے بغیر ہی جذباتی ہونے لگتے ہیں۔۔۔۔۔
احمد Sep 11, 2015 08:18am
ویسے تو آپ کی تحریر سے اتفاق ہے لیکن مغرب میں ھاتھ نہ لگانے کی وجہ صرف سخت قوانین ہیں اور ان کا اطلاق۔ ہمارے ہاں اگر یہ نظا م رائج ہوجائے تو میرے اور آپ جیسے کم از کم صرف انا کی خاطر پستول نہیں نکالیں گے۔
حسن امتیاز Sep 11, 2015 03:54pm
@رمضان رفیق صاحب : آپکی بات سو فیصد درست ہے۔ میری رائے پروین شاکر کے الفاظ میں افراد ہیں غلط یا غلط ہیں تصورات یا اس معاشرے کو ہی ڈھالا گیا غلط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل نظم یہ ہے حرف غلط نہ تھا، مجھے سمجھا گیا غلط لکھا گیا غلط، کبھی بولا گیا غلط میں بھی غلط نہ تھا میری باتیں غلط نہ تھیں مجھ کو، میرے کلام کو جانچا گیا غلط میزان ٹھیک تھا، پلڑے درست تھے لیکن یہ کون دیکھتا ہے کہ تولا گیا غلط مجھ میں نہیں تھے عیب کسوٹی میں عیب تھے میرا تھا یہ قصور کہ پرکھا گیا غلط طوفان کے بعد اہل تدبر کو ہے یہ فکر ساحل کا تھا قصور کہ دریا گیا غلط افراد ہیں غلط یا غلط ہیں تصورات یا اس معاشرے کو ہی ڈھالا گیا غلط