جب تسلی دینے کیلئے الفاظ نہیں تھے ...

شائع April 21, 2016
کراچی میں ہلاک ہونے والے ایک پولیس اہلکار کے اہلخانہ غم سے نڈھال ہیں—۔فوٹو/ ڈان
کراچی میں ہلاک ہونے والے ایک پولیس اہلکار کے اہلخانہ غم سے نڈھال ہیں—۔فوٹو/ ڈان

کراچی: اورنگی ٹاؤن میں پولیس پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی 4 بچوں کی سوگ مناتی ہوئی ماں کو کوئی کیسے تسلی دے سکتا ہے؟

ان کے شوہر کی میت سہراب گوٹھ میں ایدھی کے سرد خانے میں موجود ہے، ان کے بچے زندگی سے بھروسہ کھو کر، آنکھوں میں ہزاروں سوالات لیے اپنی ماں سے چپکے ہوئے ہیں، جن کے جواب ان کی والدہ کے پاس موجود نہیں، آپ صرف بے بسی سے انہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ایسے کوئی الفاظ نہیں جو ان کی زندگی میں تمام چیزوں کو بالکل پہلے جیسا کردیں۔

اسکول یونیفارم میں ملبوس بیٹے اور اپنی 3 بیٹیوں کے درمیان گِھری ہوئی ماں، سنہرا خان، پولیس حملے میں ہلاک ہونے والے 7 پولیس اہلکاروں میں سے ایک محمد رستم خان کی اہلیہ ہیں۔

سنہرا نے بتایا کہ وہ اور ان کا شوہر خوشاب کے علاقے 'جبی شریف' سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی میں ان کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں۔ انھوں نے رندھی آواز کے ساتھ کہا، 'مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ میں یہاں بالکل اکیلی ہوں، میرا بھائی جو پاکستان رینجرز میں ہے اس کی تعیناتی بدین میں ہے، میں نے اسے بلایا ہے۔'

اپنے بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، 'یہ میٹرک کے امتحانات دے رہا ہے اور اس کے والد چاہتے تھے کہ یہ بہترین کارکردگی دکھائے۔ رستم، فیصل کو امتحانی مرکز چھوڑنے اور واپس لانے کے لیے چھٹی لیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فیصل اپنے امتحانات پر توجہ دے اور کسی بھی چیز کے بارے میں فکرمند نہ ہو'۔

اپنے بچوں کی آنکھوں میں اداسی سے دیکھتے ہوئے سنہرا نے کہا، 'میرے شوہر 10 مہینے بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔ ہم نے بلال کالونی میں اپنا چھوٹا سا گھر بنایا ہے، جہاں ہم حال ہی میں منتقل ہوئے ہیں، لیکن ابھی بھی وہ گھر رنگ وروغن اور دروازے نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل ہے۔ میرے شوہر ہر شام ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھتے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے۔ انہوں نے فیصل کو کہا تھا کہ جیسے ہی وہ میٹرک کرکے فارغ ہوگا وہ اسے الیکٹریشن کا کورس کروائیں گے۔ ہماری بڑی بیٹی کے لیے انھوں نے ٹیچنگ کا پیشہ تجویز کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی انگلش لینگویج کورس کرے'۔

رستم خان کی بڑی بیٹی سمیرا کا کہنا تھا، 'ابو کو چھٹی سے بلا لیا گیا تھا کیونکہ انہیں پولیو رضاکاروں کی حفاظتی ٹیم میں شامل کیا جانا تھا۔ کام کے دوران بھی انہوں نے فیصل کو کال کرکے اس سے حال پوچھا اور کہا کہ گھبراہٹ کا شکار نہ ہو۔ پیپر کے بعد فیصل نے ابو کو کال کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنے پرچے کے بارے میں بتاسکے، لیکن ان کا فون بند تھا۔ میں بھی گھر پہنچی اور نہا رہی تھی کہ امی نے مجھے آواز دے کر کہا تمھارے ابو کا فون بند جا رہا ہے۔ یہ بہت تعجب کی بات تھی، کیونکہ ان کا فون کبھی بند نہیں ہوتا۔'

مزید پڑھیں: کراچی میں 7 پولیس اہلکاروں کی 'ٹارگٹ کلنگ'

سمیرا کا بھائی آنکھوں میں آنسو لیے منہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ اس کی چھوٹی بہنیں اپنی ماں کا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ سُمیرا نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا، 'اُس وقت میں نے پولیس ہیڈکوارٹر میں ابو کے نگران منشی صاحب سے رابطہ کیا۔ مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ میرے ابو شہید ہوگئے ہیں۔ میری والدہ ذیابطیس کی شکار ہیں، بھائی ابھی صرف 15 سال کا ہے اور میں انٹر فرسٹ ایئر کی طالبہ ہوں۔ اب ہم کیا کریں گے۔'

اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اےایس آئی) شوکت حیات نے ایک اور انکشاف کیا کہ 'اس خاندان نے حال ہی میں ایک اور رشتے دار کو کھویا ہے۔ ان بچوں کے ماموں، جو ایک پولیس افسر تھے، دوران ڈیوٹی ہارٹ فیل ہونے کے باعث موقع پر ہی وفات پا گئے تھے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے، لیکن اس خاندان کے لیے بھی ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔ بہت جلد سب رستم کو بھی بھول جائیں گے۔'

دوسری جانب پولیس کانسٹیبل محمد عقیل اور علی اکبر اپنے ساتھیوں کی میت کو گھوٹکی کے قریب شہدادپور لے جانے کے لیے آئے تھے۔ حملے میں ہلاک ہونے والے وزیرعلی، دائم الدین اور غلام رسول شہدادپور میں زیرِتربیت تھے۔ محمد عقیل نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'وہ ہمارے جانے کے صرف 5 منٹ بعد ہیڈ کواٹر سے نکلے تھے، یقینی طور پر ان کی جگہ ہم ہوسکتے تھے'۔

علی اکبر نے اس پولیو مہم میں موجود پولیس اہلکاروں کے بارے میں بتایا کہ 'ہم اُن 200 پولیس اہلکاروں میں شامل تھے، جنھیں 17 اپریل کو پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے بلایا گیا تھا، آج ہمارا ڈیوٹی کا آخری دن تھا اور کل ہم گھر واپس جا رہے تھے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان کے تمام مقتول ساتھیوں کی شادی ہوچکی تھی جن کے چھوٹے بچے بھی ہیں اور سے سب سے بڑے کی عمر صرف 4 سال ہے۔

پولیس موبائل کے ڈرائیور اکرام رضا کا کہنا تھا کہ 'اورنگی ٹاؤن آسان علاقہ نہیں ہے، ہم جب بھی اورنگی میں موجود ہوتے ہیں تو کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن میرے خیال میں ان میں سے کچھ افراد جو کراچی سے نہیں تھے وہ حالات کی سنگینی کو سمجھ نہیں پائے کہ وہ کس خطرے کے خلاف کھڑے ہیں'۔

پولیس کانسٹیبل علی اکبر کا کہنا تھا 'ہم نے سنا تھا کہ کراچی میں متعدد آپریشن کے بعد یہ شہر پُرامن ہوگیا ہے'۔

پولیس حملوں میں قتل ہونے والے محمد رستم خان، وزیرعلی، دائم الدین اور غلام رسول کے علاوہ تین مزید پولیس اہلکار محمد اسمٰعیل ، گُل خان اور غازی خان نے بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

یہ خبر 21 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Naveed Shakur Apr 21, 2016 03:51pm
Govt is busy in Panama Scandal they forgot to declare any reward for the Families.
ahmaq Apr 21, 2016 11:56pm
@Naveed Shakur ----- OK what is sindh government or Police administration doing?

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025