ضعیف کاندھوں پر مالی بوجھ کیوں؟
میں ملتان سبزی منڈی کے فرشی سبزی اسٹال دیکھنے میں منہمک تھا کہ کسی نے میرے بازو کو ہلکا سا ہلایا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے والد کی عمر کا ایک شخص توت کی شاخوں سے بنا ہوا ایک ٹوکرا اٹھائے کھڑا تھا۔
وہ اپنی عمر کے ساٹھ یا ستر کے پیٹے میں ہوں گے، ان کے چہرے پر ایک اداسی اور منفرد سنجیدگی کے آثار نمایاں تھے، داڑھی اور سر کے بالوں میں سیاہ بال اب خال خال ہی نظر آ رہے تھے۔ میری آنکھوں میں سوال پڑھ کر خود ہی بول پڑے: "باؤ جی میں آپ کی خریدی ہوئی سبزیاں گاڑی تک چھوڑ آؤں؟''
میں انہیں دیکھ کر ابھی حیرت زدہ ہوا ہی تھا کہ انہیں لگا کہ میں انکار کرنے والا ہوں، چنانچہ انہوں نے فوراً کہا، "میری مدد ہو جائے گی۔"
میں نے ان کی پیش کش قبول کر لی اور وہ کچھ سبزیوں اور پھل وغیرہ کے شاپرز اپنے ٹوکرے میں رکھ کر گاڑی تک چھوڑ آئے۔
میں نے اپنے ساتھ موجود دوست سے پوچھا کہ انہیں کتنے پیسے دینے ہیں، دوست نے بتایا کہ بیس روپے ایک طے شدہ مزدوری ہے۔
میں نے دوست کو کہا کہ انہیں مزدوری میں خود دوں گا مگر میں چوں کہ دوسرا سامان خریدنے میں مصروف ہوا تو میرے دوست نے مزدوری ادا کر دی۔
وہ عمر رسیدہ شخص مزدوری وصول کر کے جا رہا تھا کہ میں نے آواز دی اور پوچھا کہ کتنی مزدوری ملی ہے، انہوں نے بتایا کہ "چالیس پچاس روپے ہیں شاید"۔ وہ ان روپوں سے مطمئن دکھائی دیے۔
ان کی آنکھوں میں اطمینان اور تشکر دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر یہ شخص ڈنمارک میں ہوتا اور اتنی مزدوری کرتا تو کتنے پیسے وصولتا۔
میں نے اُسی حساب سے انہیں مزدوری ادا کردی، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ڈنمارک جیسے کسی ملک میں ہوتا تو ایسی مزدوری اور وہ بھی اس عمر میں کیونکر کرتا؟
بلکہ وہاں وہ کسی مقامی بار میں بیٹھا خوش گپیاں لگا رہا ہوتا یا گھر بیٹھے حکومتی وظیفے پر کمی بیشی پر تنقید کر رہا ہوتا۔ یا پھر کسی مسجد کی کمیٹی کا فعال ممبر ہوتا، بہرحال جہاں بھی ہوتا، اس عمر میں یوں لوگوں کا سامان نہ ڈھو رہا ہوتا۔
ہم جو اسلامی و مشرقی اقدار کے نام لیوا ہیں، باوجود اس کے کہ یہاں بوڑھوں کا آبادی میں تناسب بھی کافی کم ہے، یہاں پر بھی بوڑھے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کوئی نظام موجود نہیں۔
جو لوگ سرکاری یا کارپوریٹ اداروں میں کام کرتے ہیں وہ پنشن کے نام پر شاید کچھ نہ کچھ مالی معاونت حاصل کرتے ہوں مگر ملک کی اکثریت جو چھوٹی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں یا جو کسی گھر میں ڈرائیور یا خانساماں ہیں، مزدور، مستری یا کمہار ہیں اور جو کسی عام سطح کے کام سے وابستہ ہیں، ان کی زندگی میں جب تک وہ صحت مند ہیں، تب تک ہی سکون ہوتا ہے۔ جوں ہی عمر ڈھل گئی یا کسی بیماری نے آ لیا، یا کسی حادثے کا شکار ہو گئے، اس کے بعد زندگی میں صرف افلاس رہ جاتا ہے۔
پڑھیں: بوڑھوں کے مسائل
ساری زندگی خود کو بَٹھوں میں جھونکنے والوں، وزن ڈھونے والوں، فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنے والوں کو بیتی جا رہی عمر کے ساتھ کسی فضول مشین کی مانند ایک طرف کر دیا جاتا ہے اور وہ بے چارگی کا وجود بن کر رہ جاتے ہیں۔
ڈنمارک میں ہر شخص خواہ وہ کوئی بھی کام کر رہا ہو، وہ کسی نہ کسی انجمن کا ممبر ہوتا ہے جنہیں یونین کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ یونین انشورنش کمپنی کی طرح کام کرتی ہیں، اگر آپ کا روزگار چلا جائے یا حادثہ ہو جائے تو یہ آپ کو روزمرہ کے لیے آمدن مہیا کرتی ہیں، آپ کو نوکری حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں اور اگر آپ کچھ زیادہ ادا کر رہے ہیں تو آپ کو اضافی پنشن بھی مل سکتی ہے۔
وہ پنشن اس لازمی پنشن کے علاوہ ہوتی ہے جو حکومت سبھی عمر ریسدہ لوگوں کو دیتی ہے خواہ وہ کسی یونین کے ممبر رہے یوں یا نہ رہے ہوں۔
ہاں یہ پنشن ہرگز بھی شاہانہ نہیں ہوتی مگر اتنی ضرور ہوتی ہے کہ وہ افراد اپنی زندگی کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر آسانی سے گذار سکتے ہیں۔
پاکستان میں ایک عام مزدور جو تین سو سے پانچ سو یومیہ مزدوری کما پاتا ہے، اتنے روپوں سے اپنا گزارہ کیسے کرتا ہے، یہ موضوع کسی دوسرے روز کے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ لیکن صرف یہی سوچ لیجیے کہ اس میں سے وہ بڑھاپے کے لیے بچاتے کیا ہوں گے؟
مزید یہ کہ کیا ملک میں کوئی ایسا ادارہ یا انجمن وجود رکھتی ہے جو بڑھاپے میں ان مزدوروں کی مالی سکیورٹی کی نگہبانی کرے؟
سوشل سکیورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹ کے نام سے ادارے تو موجود ہیں لیکن میدان عمل میں وہ کتنے کارگر ہیں، اس کے لیے شاید بہت زیادہ تحقیق کی بھی ضرورت نہیں۔
بدقسمتی سے کئی نجی ادارے اور صنعتیں اپنے ملازموں کو فعال یونین سازی، پینشن اور پراویڈنٹ فنڈ کے بنیادی حقوق سے ہی محروم رکھے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً ملازمین کے مستقبل کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں لوگ اکثر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بریانی کی پلیٹ اور نان چھولوں کے عوض ووٹ فروخت ہوتے ہیں لہٰذا غریب لوگ حکمرانوں کا گلہ نہ کیا کریں۔
مگر کیا کوئی شخص اس بات پر غور بھی کرتا ہے کہ بریانی کی پلیٹ اور نان چھولے کے عوض ووٹ سماج کے کس طبقے کی جانب سے ڈالے جاتے ہیں؟ کیا اچھا کمانے والا شخص جس کے گھر میں تمام سہولیات میسر ہوں، وہ ایک ہفتے کے راشن کے لیے اپنا ووٹ فروخت کرے گا؟
نہیں، بالکل بھی نہیں۔ ہاں مگر وہ شخص ایسا ضرور کر سکتا ہے جسے گھر میں سوکھی روٹی لانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑیں اور زندگی میں کسی بھی دن کمانے کی فکر سے آزادی نہ ملے۔
جب یہ حالات ہوں گے تو قومی سوچ کا کھو جانا عین ممکن ہے اور ایسی ہی غریبی سے کرپشن کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
جب کسی ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود ہو جو اپنے خوابوں کے محلات تعمیر کرتا ہو، تو متوسط اور نچلے طبقات میں اپنی معاشرتی محرومی کو پُر کرنے کے لیے کرپشن کا جنم لینا جائز نہ سہی مگر لازم ضرور ہے۔
پڑھیں: کیا پینشنر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے؟
جب معاشرہ آپ کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تو آپ اپنے گناہوں میں بے باک ہونے لگتے ہیں، بھوک و افلاس کے مارے اپنے پیٹ کی دوزخ بجھانے کی خاطر مجرم بن جاتے ہیں اور اس طرح معاشرہ تنزلی کی جانب جاتا ہے۔
آج اگر کچھ لوگ غربت کی اس قدر گہری کھائی میں گر چکے ہیں کہ اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں تو ان کے پیچھے بھی ایسی درجنوں محرومیاں ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
ہم تو اسلام کے نام لیوا ہیں۔ اسلام کا درس ہی یہی ہے کہ ایک منصفانہ معاشرہ ہی جرائم سے پاک معاشرہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر ہم اس بات پر غور کیوں نہیں کر رہے؟ روٹی چرانے والے کو مار مار کر لہولہان کر سکتے ہیں مگر کیا پانچ روپے کی روٹی خرید کر اسے عزت سے نہیں دے سکتے؟
پاکستان جیسے غیر متوازن معاشرے میں جہاں معاشرتی انصاف ناپید ہے، وہاں معمولی چوری چکاری سے لے کر عسکریت پسندی تک کسی بھی برائی کی کاشت بہت آسان ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر ملازمین، محنت کشوں اور ہر شعبے میں موجود افراد کے لیے ایسے عملی انتظامات کیے جائیں تاکہ انہیں عمر کے آخری حصے میں مالی کمی کے باعث اپنی قوت سے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔
وہ ایک بوڑھا جو ملتان سبزی منڈی میں لوگوں کی سبزیاں ڈھوتا ہے، اپنی اداسیوں اور محرومیوں کی زبانی یہ سوال کرتا ہے کہ فرات کے کنارے بھوکے کتے کی ضروریات کا خیال رکھنے والے مسلمانو! اب تم کہاں بستے ہو؟
تبصرے (4) بند ہیں