اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جگہ نیا زیادہ طاقتور اور غیر متنازع قومی احتساب کمیشن (نیک) بنانے پر اتفاق کرلیا۔

وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف زاہد حامد کی صدارت میں قومی احتساب بیورو قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ نئے کمیشن میں قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کی پلی بارگین اور رقم کی رضاکارانہ واپسی (وی آر) جیسی دفعات شامل نہیں کی جائیں گی۔

کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ قومی احتساب کمیشن کے چیئرمین کی مدت ملازمت نیب چیئرمین کے برعکس 4 سال کے بجائے 3 سال تک ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 'نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین'

کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ احتساب کمیشن کے کیسز صرف احتساب عدالتوں میں نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں بھی چلائے جائیں گے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں اِن کیمرہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر زاہد حامد نے میڈیا کو بتایا کہ کمیٹی نے نیب کی جگہ احتساب کمیشن بنانے پر اتفاق کرلیا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ وائٹ کالر جرائم کے لیے اکاؤنٹی بلیٹی انویسٹی گیشن ایجنسی (اے آئی اے) بھی ہونی چاہیئے جو کمیشن کے ماتحت کام کرے، اس ایجنسی کی تحقیقات کے دائرہ کار کے حوالے سے کمیٹی ارکان سے تجاویز بھی طلب کی گئیں۔

زاہد حامد نے بتایا کہ آئندہ اجلاس میں کرپشن اور بدعنوانیوں کی تعریف پر غور کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ ان کی تعریفوں میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی نیب کے اختیارات میں کمی پر متفق

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کمیٹی کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ کمیٹی نے ملائیشیا، بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ سمیت دیگر ممالک کے احتساب قوانین کا بھی جائرہ لیا۔

مذکورہ رکن کا کہنا تھا کہ 17 جنوری 2017 کو ہونے والے اجلاس میں کچھ ارکان نے فوجی جرنیلوں اور ججز کا بھی سول اینٹی کرپشن کمیٹیوں کے تحت ملک بھر میں بلا تفریق احتساب کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر آئندہ اجلاس میں فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت ججز اور فوجی جرنیلوں کا نیب یا دیگر سول اینٹی کرپشن کمیٹیوں کے تحت جائزہ نہیں لیا جاتا، چوں کہ ان دونوں اداروں میں اپنا اندرونی احتساب کا نظام ہے۔

کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ سائنسدانوں کی طرح بیوروکریٹس کو بھی ہرسال اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنا چاہئیے، تاکہ ان کی جانب سے کرپشن کے مرتکب افراد کو بے نقاب کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب سے رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار واپس

اجلاس میں نیب آرڈیننس کے تحت پلی بارگین اور رقم کی رضاکارانہ واپسی سمیت حال ہی میں بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے کیس کا بھی جائرہ لیا گیا۔

یاد رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے رواں برس 5 جنوری کو متنازع نیب قوانین کا جائزہ لینے کے لیے 20 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کرکے اپنی رپورٹ اسپیکر کے حوالے کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

حکومت نے حال ہی میں نیب آرڈیننس میں ترامیم کرکے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے ذریعے کرپشن کیسز کے حوالے سے نیب چیئرمین کے پلی بارگین کے اختیار کو محدود کیا گیا، مگر سینیٹ نے اس آرڈیننس کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واپس کردیا تھا۔


یہ خبر 3 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں