27 مارچ 2017 کو میڈیا کے مطابق سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستانی ریاست اور حکومت کی جانب سے جو متبادل بیانیہ تشکیل دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اسے دانشوروں اور اسکالرز کی براہ راست شرکت کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

دسمبر 2014 کے بعد جب سے ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن حکومت نے خلوص دل سے مذہبی شدت پسندی کے خلاف جامع مسلح آپریشن کو ہری جھنڈی دکھائی، تب سے قومی ایکشن پلان شروع کرنے کی باتیں بھی کی جانے لگیں، کہ جس کے ذریعے پاکستان میں شدت پسندی کے سماجی پہلوؤں کا حل نکالا جائے۔

خیال یہ ہے کہ ایک متبادل بیانیہ تشکیل دیا جائے تا کہ اُس بیانیے کو بے اثر بنایا جائے جس نے بڑھتی مذہبی شدت پسندی اور ایک بے اعتدال ذہنیت کو فروغ دیا۔ عام خیال کے مطابق یہی وہ ذہنیت ہے جس نے پرتشدد دشمنی اور ان مسلح گروپ کو بننے میں سہولت فراہم کی جن میں سے ہر گروپ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ملک میں سچے مسلمان صرف وہی ہیں۔

ایک حد تک، پاکستان کی ’اسٹیبلشمنٹ’ پہلے ہی اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ دہائیوں قبل یہ ریاست ہی تھی جس نے تنگ نظر قوم پرستانہ بیانیے کو بُننا شروع کیا تھا، جس کا مقصد پاکستان کے (بڑی حد تک تصوراتی) اندرونی اور بیرونی ’دشمنوں’ کے خلاف استعمال کرنا تھا، خاص طور پر 1980 کی دہائی میں۔

اس مقصد کو نہ صرف سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند ڈونر ملکوں کی اخلاقی اور مالی امداد سے، بلکہ ستم ظریفی کے ساتھ، امریکا جیسے اسٹریٹجک اتحادیوں کی ایما پر حاصل کیا گیا جو پاکستان کو افغانستان پر قابض سوویت افواج (88-1979) کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کے ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔

پاکستان ایک تکثیری اور جدت پسند مسلمان اکثریتی ریاست، جیسا کہ بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اس ملک کے بارے میں سوچا تھا، سے بدل کر 1980 کی دہائی کے بعد سے، ایک تنگ نظر ریاست بن گیا۔ اس سب نے ایک ایسا غیر مستحکم سماجی ماحول پیدا کیا جس میں عقیدے کے نام پر کیے جانے والے پر تشدد اقدامات اور متعصب رویوں کو درست قرار دیا جاتا۔ اس وقت تک جب ایک دن ریاست خود ہی دشمن کے طور پر دیکھی جانے لگی۔

2014 کے بعد والا فوجی آپریشن بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ بلکہ، یہ کسی بھی مسلم ملک میں شدت پسندی کے خلاف ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی کارروائی رہی ہے۔ مگر آپریشن کی دوسری ٹانگ، قومی ایکشن پلان، کو اب بھی اپنی پوری قوت سے چلانا باقی ہے۔

آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ قومی ایکشن پلان کے پورے خیال کو پس پشت ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ قومی ایکشن پلان کے خلاف مخالفت ان ہی سیاسی طبقوں سے ابھر رہی ہے جنہوں نے پرانے بیانیے اور اس وقت کے سماجی ماحول سے سب سے زیادہ فوائد حاصل کیے تھے اور اس میں حکمران جماعت کے عناصر کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے 'چند عناصر' بھی شامل ہیں۔

قومی ایکشن پلان کو جس دوسرے مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ کہ اس کے چند حصوں کو ان کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے جو اب آئین کو اس کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی سے لے کر آئین میں اس بیانیے کی کئی خصوصیات کو شامل کیا گیا جسے اب ریاست حقیقی طور پر بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی لیے اب مخالفین کے لیے قومی ایکشن پلان کے تحت شروع کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں پیش بینی کرنا اور ان کارروائیوں کے خلاف عدلیہ کا استعمال کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مفاد پرست عوامی الیکٹرانک میڈیا کا استعمال قومی ایکشن پلان کو بے اثر رکھنے کا ایک اور طریقہ ہے۔

اگرچہ قومی ایکشن پلان پر پوری طرح سے عمل در آمد کروانے کی اپنی خواہش میں فوج سب سے پیش پیش رہی ہے، مگر فوج نے قابل فہم طور پر اسے شدت پسندی کے خلاف آپریشن کا سویلین ہتھیار تصور کرلیا ہے۔ اس بات نے ان صفوں میں مایوسی پیدا کر دی ہے جو شدت پسندی کا مقابلہ جنگی انداز میں کرتے آئے ہیں۔

تاحال چند سیاسی اور عدالتی ضابطوں نے سویلین قیادت کو تقریباً مکمل طور پر ہی اس حوالے سے غیر یقینی کا شکار بنا دیا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر حقیقی صورت اور روح کے ساتھ عمل درآمد کس طرح جاری رکھنا ہے۔

سچ یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کو اتنا ہی فوجی مقصد ہونا چاہیے جتنا یہ ایک سویلین مقصد ہے۔ 1960 کی دہائی میں فوجی حکمران ایوب خان دو ترقی پسند دانشوروں کے ساتھ مؤثر انداز میں ایک جدت پسند مسلم بیانیہ بننے میں مدد کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے، ان میں احمد پرویز اور ڈاکٹر فضل الرحمن شامل تھے، اس طرح ایوب خان کو ایک ہم عصر اور جدت پسند سماجی ماحول بنانے میں سہولت فراہم ہوئی جو تیز تر اقتصادی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوا۔

اور جب بیانیہ چند نسلی گروہوں کو منانے میں ناکام گیا جو ایوب خان کی معاشیات میں خود کو نظر انداز محسوس کر رہے تھے، تو ان کی حکومت نے ثقافتی فطرت کی حامل خصوصیات کو شامل کرنے کی خاطر ایک کمیونسٹ مخالف، مشہور اردو شاعر فیض احمد فیض کو مدعو کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔

سعدیہ طور اپنے ایک مضمون ’ایٹ ہوم وتھ دی ورلڈ’ (مرتب کردہ مریدلا ناتھ چکربورتی) میں لکھتی ہیں کہ 1967 میں ایوب حکومت نے کمیشن برائے کلچر اینڈ آرٹس کے اعلٰی اجلاس کی صدارت کے لیے فیض کو مدعو کیا۔ فیض کے لیکچرز پر محیط ایک رپورٹ، جس سے ’دی فیض رپورٹ’ نامی ایک طویل دستاویز مرتب ہوئی میں پاکستان کو ایک کثیر الثقافت اور کثیرالنسل ملک، اور ایک جدت پسند مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر بیان کیا، جس کا مذہب صرف ایک حصہ بھر تھا نہ کہ اس کی پوری ساخت۔

طور لکھتی ہیں کہ اگرچہ فوجی اسٹیبلشمنٹ رپورٹ سے متفق تھی، مگر مارچ 1969 میں ایوب کا اقتدار ختم ہو گیا۔ رپورٹ، 1971 کے بعد کے پاکستان کا اقتدار بھٹو کے سنبھالے جانے تک کہیں دفن رہی۔

پاکستان کی لوک ثقافت کے موضوع پر یونیورسٹی آف البرٹا کے لیے ایک تحقیقی مقالے میں شمائلہ ہیمانی لکھتی ہیں کہ 1972 میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سابق اہم نظریاتی، جے اے رحیم نے خاص طور پر 1971 کے سقوط ڈھاکہ واقعے اور ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی آمد کی روشنی میں پاکستانی قوم پرستی کو تشکیل دینے کے لیے دانشوروں کے ایک گروپ کی کانفرنس منعقد کی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانفرنس کا مرکزی موضوع فیض رپورٹ تھا جو کہ اس حکومت سے منظور شدہ تھی جس کی مخالفت پی پی پی نے کی تھی۔ ہیمانی کانفرنس میں موجود دانشوروں میں سے ایک خالد سعید بٹ کا حوالہ دیتی ہیں، جن کے مطابق اس موقعے پر دو خیالات کا انضمام ہوا تھا۔

ایک خیال تو یہ تھا کہ، بلاشبہ پاکستان کی قوم پرستی میں کثیرالثقافی پہلو کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ مگر دوسرے خیال میں اس بات پر زور ڈالا گیا کہ (مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے) ایک مزید سخت قوم پرستی کی بنیاد ڈالی جائے اور ملک کی ثقافت کو یکسوئی سے پیش کیا جائے۔

مؤخر الذکر ہی قوم پرستی کی بنیاد بنی۔ 1980 کی دہائی میں، ضیا حکومت کے دوران، اسے مزید تقویت ملنا شروع ہوئی اور مزید تنگ نظر بننا شروع گئی اور بالآخر، اس نے ایک تباہ کن طرزِ سوچ کی صورت اختیار کر لی۔

اہم بات یہ نہیں کہ یہ کیا سے کیا بنی۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج کی شروع کردہ ایک دانشورانہ کاوش, جسے پھر سویلین قیادت اور دانشور طبقہ آگے لے کر گئے، وہ ملک کے سیاسی مزاج کا گہرائی کے ساتھ حصہ بن گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ، اس پریشان کن مزاج کو ایک بار پھر صرف اسی مرحلے کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اسی لیے ربانی درست ہیں کہ نہایت مطلوب متبادل بیانیہ تشکیل دینے کے لیے سیاستدانوں کو دانشوروں کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ مگر میں خائف ہوں کیوں کہ یہ خیال کرنا کہ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ایک بیوقوفی ہے۔

کیوں کہ متبادل بیانیے کو ان میں عام کرنے کی ضرورت ہے جو محاذوں پر ان دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو پرانے، زخمی بیانیے سے پیدا ہونے والے غدار ہیں۔ چنانچہ متبادل بیانیے کی تشکیل میں فوج کی شرکت انتہائی اہم ہے۔

یہ مضمون ڈان سنڈے میگزین میں 2 اپریل 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ali Apr 06, 2017 05:17pm
excellent writeup,, cant agree more,,, keep going pracha,,,