پاناما جے آئی ٹی وزیراعظم سے کیا سوالات کرسکتی ہے؟

اپ ڈیٹ 15 جون 2017
وزیراعظم نواز شریف—فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف—فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف آج شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات میں مصروف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوں گے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب عہدے پر فائز وزیراعظم تفتیش کاروں کو براہ راست جواب دہ ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی نے گذشتہ ماہ ہی وزیراعظم اور ان کے بچوں کے لیے سوالنامہ تیار کرلیا تھا، جس کے بعد 28 مئی کو وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، تحقیقاتی ٹیم نواز شریف کے چھوٹے بیٹے حسن نواز سے بھی پوچھ گچھ کرچکی ہے۔

وزیراعظم کو جاری کیے گئے نوٹس کے مطابق انہیں ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ بطور گواہ طلب کیا گیا ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پیشی کے دوران تحقیقاتی ٹیم ان سے دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے بچوں کی جائیدادوں اور کاروبار کے حوالے سے سوالات پوچھے گی۔

تفتیش کار پاناما پیپرز کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مختلف فورمز پر دیئے گئے وزیراعظم کے بیانات میں موجود تضادات کے حوالے سے بھی سوال کرسکتے ہیں۔

ان بیانات میں وزیراعظم کا قوم سے خطاب، قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیانات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی نے شہباز شریف کو بھی طلب کرلیا

ذرائع کے مطابق تفتیش کار وزیراعظم کے کزن طارق شفیع اور دیگر گواہان کے بیانات کی روشنی میں تیار کیے گئے سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں۔

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں وزیراعظم کی متوقع پیشی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکیڈمی اور جے آئی ٹی کے دفاتر کے گرد سیکیورٹی سخت کی جاچکی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ملحقہ سڑکوں پر مختلف بینرز اور پوسٹرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں جن میں نواز شریف کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ جے آئی ٹی تحقیقات کے سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی 17 جون کو طلب کرچکی ہے جبکہ قطری خطوط لکھنے والے شیخ حماد بن جاثم بن جابر الثانی بھی تفتیش کاروں کو قطر آکر ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی پیش کش کرچکے ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم وزیراعظم کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر کو بھی 25 جون کو پیش ہونے کی ہدایات جاری کرچکی ہے۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں