شہبازشریف جےآئی ٹی میں پیش: 'ہم پرکرپشن کا کیس تھا،نہ ہے اور نہ کل ہوگا'

اپ ڈیٹ 17 جون 2017
جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد شہباز شریف میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے—۔ڈان نیوز
جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد شہباز شریف میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے—۔ڈان نیوز

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان سے 3 گھنٹے سے زائد پوچھ گچھ کی گئی۔

شہباز شریف کی پیشی پر بھی سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ تھے، جو بعدازاں واپس لوٹ گئے۔

پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے، پرسوں وزیراعظم پاکستان بھی اسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور اس طرح پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ باب رقم ہوا کہ ایک منتخب وزیراعظم نے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف بیان کیا اور آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صوبے کا خادم کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے اور وزیراعظم نے اس طرح قانون کی حکمرانی کی حقیر خدمت کی اور ثابت کیا کہ ہم منتخب سیاستدانوں کے دلوں میں اداروں کا بڑا احترام ہے'۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی نے شہباز شریف کو بھی طلب کرلیا

شہباز شریف نے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے پرانا کمر کا عارضہ ہے لیکن میں نے کمر کی تکلیف کا بہانہ نہیں بنایا، میں علاج کے لیے لندن نہیں گیا، بلکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنائی گئی اس کمیٹی کے سامنے عاجزی سے اپنا موقف پیش کیا، لیکن یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ شریف خاندان کا احتساب پہلی بار نہیں ہورہا'۔

انھوں نے ماضی کے دریچے کھنگالتے ہوئے بتایا کہ '2 جنوری 1972 کی شام اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا یعنی چھین لیا گیا، جسے میرے والد اور ان کے بھائیوں نے بنایا تھا، کسی ایوننگ پارٹی میں شریک ہوکر اس کا لائسنس نہیں لیا گیا تھا'۔

شہباز شریف نے کہا کہ 'ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے باپ کے بیٹے ہیں، جسے دنیا ایماندار مانتی تھی اور جنہیں بینک آنکھیں بند کرکے قرضے دیتے تھے'۔

انھوں نے بتایا کہ ہمارا 5 مرتبہ احتساب ہوا، لیکن آج تک کسی سرکاری خرد برد کا کوئی کیس ہمارے اوپر نہیں، ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ 'کیا میٹرو بس یا اروبوں روپے کے پاور پلانٹس کے منصوبوں میں ہم نے کوئی کرپشن کی؟ ہم پر نہ پہلے کرپشن کا کیس تھا، نہ آج ہے اور نہ کل ہوگا'۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے شہباز شریف کی طلبی کے احکامات اُس روز سامنے آئے تھے جب ان کے قریبی ساتھی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ اگر جے آئی ٹی شریف خاندان پر پی ایچ ڈی کرکے تحقیقی مقالہ لکھنا چاہتی ہے تو شہباز شریف کو بھی طلب کرلے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'جے آئی ٹی کو چاہیے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو دعوت دیں، شہباز شریف انہیں وہ سب معلومات فراہم کریں گے جو وہ جاننا چاہتے ہیں'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو 'طویل تفتیشی سیشنز' سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔

اس سے قبل 15 جون کو وزیراعظم نواز شریف پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

جے آئی ٹی میں پیشی اور تقریباً 3 گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرکے آیا ہوں، میرے تمام اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہیں، میں نے آج پھر تمام دستاویزات جے آئی ٹی کو دے دی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے'، ساتھ ہی انھوں نے امید کا اظہار کیا تھا کہ 'میں اور میرا پورا خاندان اس جے آئی ٹی اور عدالت میں سرخرو ہوں گے'۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی جےآئی ٹی میں پیشی: ’میں اورمیرا خاندان سرخرو ہوں گے‘

وزیراعظم نواز شریف سے قبل جے آئی ٹی ان کے دونوں صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز سے شریف خاندان کے اثاثوں سے متعلق تحقیقات کرچکی ہے، ان کے علاوہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رحمٰن ملک کو بھی رواں ماہ پوچھ گچھ کے لیے طلب کررکھا ہے۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی: وزیراعظم، کیپٹن صفدر کے اثاثوں کی تفصیلات طلب

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ملکی سیاست میں ہلچل اور سپریم کورٹ میں کارروائی

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا

مزید پڑھیں: حکمراں جماعت کو جے آئی ٹی میں فوجی اہلکاروں کی شمولیت پر اعتراض

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی:تحقیقات میں درپیش مسائل سے متعلق درخواست دائر

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں