اسلام آباد: شریف خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں پانچویں روز سماعت ہوئی اور تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل کے دلائل

آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ کل کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول کے ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی تھی، عدالت کے ریمارکس تھے کہ بادی النظرمیں یہ جعلسازی کا کیس ہے اور اسی حوالے سے میں نے کل کہا تھا کہ اس کی وضاحت ہوگی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کل کہا کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی، جو اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی اور ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں بہت سے سولیسٹر ہفتہ بلکہ اتوار کو بھی کھلتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: میڈیا پر دستاویزات لیک ہونے پر عدالت عظمٰی برہم

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز سے پوچھا گیا کہ چھٹی کے روز ملاقات ہوسکتی ہے، تو انہوں نے کہا تھا کہ چھٹی کے روز اپائنٹمنٹ نہیں ہوسکتی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام سوال کیا جائے تو جواب مختلف ہوگا، مخصوص سوال نہیں کیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا دستاویزات میں متعلقہ نوٹری پبلک کی تفصیل ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کا اکثر سولیسٹر سے رابطہ رہتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حسین نواز نے نہیں کہا کہ ان کا رابطہ سولیسٹر سے رہتا ہے، ان دستاویزات پر کسی کے دستخط بھی نہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں، جبکہ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا تھا کہ عدالت میں غلط دستاویزات کیسے پیش ہوگئیں، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔

آج سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ کل عدالت کو برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی) کا 16 جون کا خط موصول ہوا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 23 جون کو جے آئی ٹی نے خط لکھا، جواب میں اٹارنی جنرل بی وی آئی نے خط لکھا۔

یہ بھی پڑھیں: برٹش ورجن آئی لینڈز نے جے آئی ٹی کی درخواست مسترد کردی

جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے، خطوط کو بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔

جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ کل پوچھا تھا کہ کیا سابق قطری وزیراعظم شواہد دینے کے لیے تیار ہے، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کل عدالت نے کہا تھا کہ سابق قطری وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا، میں نے تمام قطری خطوط کا جائزہ لیا۔

اس کے ساتھ ہی وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آج سلمان اکرم راجہ نے اچھی تیاری کی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 کا جائزہ

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 بھی منگوا لیا، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 10 ویں جلد میں جے آئی ٹی کے خطوط کی تفصیل ہوگی اور اس سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی۔

جس کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ کا سربمہر والیم 10 عدالت میں پیش کردیا گیا اور اس کی سیل عدالت میں کھول دی گئی، عدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا جب کہ جسٹس عظمت سعید نے وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ والیم آپ کی درخواست پر کھولا جارہا ہے۔

عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دے دی، تاہم عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ابھی والیم 10 کسی کو نہیں دکھائیں گے۔

اسحٰق ڈار کے وکیل کے دلائل

اسحٰق ڈار کا 34 سالہ سربمہر ریکارڈ ڈبے میں پیش کیا گیا—۔فوٹو/ ڈان نیوز
اسحٰق ڈار کا 34 سالہ سربمہر ریکارڈ ڈبے میں پیش کیا گیا—۔فوٹو/ ڈان نیوز

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے بعد وفاقی وزیرخزانہ کے وکیل طارق حسن نے دلائل شروع کیے اور اسحٰق ڈار کا 34 سالہ سربمہر ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

دلائل کے آغاز میں طارق حسن نے کہا کہ عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں اور عدالتی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اتنا بڑا ڈبہ لانے کا مقصد میڈیا کو دکھانا ہے؟ یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنے گا۔

جس پر طارق حسن نے جواب دیا 'سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے، جے آئی ٹی کے ڈبوں سے میرا ڈبا چھوٹا ہے'.

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ آپ کا موقف ہے کہ جے آئی ٹی اور عدالت حدیبیہ پیپر ملز کا کیس نہیں کھول سکتی، آپ حدیبیہ کیس کے مرکزی گواہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ پر الزام آرہا ہے کہ آپ کے اثاثے اچانک بڑھ گئے۔

جس پر طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے تمام الزامات غلط اور بدنیتی پر مبنی ہیں، میرے موکل نے تمام ٹیکس ریٹرن فائل کیے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں آپ کے موکل دبئی کے شیخ النہان کے ایڈوائزر تھے؟

جس پر طارق حسن نے جواب دیا کہ انھوں نے اسحٰق ڈار کو 82 ملین پاؤنڈ تنخواہ دی۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار کےخلاف الزامات 'جھوٹے، بدنیتی پر مبنی': وزارت خزانہ

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اپائنٹمنٹ لیٹر میں ٹرم آف سروس کا ریکارڈ کیوں نہیں لگایا؟

طارق حسن نے جواب دیا کہ یو اے ای کا کیا طریقہ ہے مجھے معلوم نہیں، کوشش کروں گا کو عدالت کو طریقہ کار سے آگاہ کروں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے موکل صرف سیاستدان نہیں بلکہ پروفیشنل ہیں، ان کی ایک عزت ہے اور وہ ملک کے اہم عہدے پر فائز ہیں۔

طارق حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے جس عرصے کے ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا الزام لگایا اُس وقت اسحٰق ڈار ملک سے باہر اور نان ریزیڈنٹ تھے، لہذا اس عرصہ میں ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ضروری نہیں تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ہم نے نوٹ کرلیا ہے، آپ کے دلائل پر غور کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل مکمل کرلیے۔

نیب وکیل کے دلائل

اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب کے وکیل چوہدری اکبر تارڑ نے دلائل دیے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ نیب نے حدیبیہ کیس کھولنے کا فیصلہ کر لیا اور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سوچ لیا تو یہ سوچ تحریری شکل میں کب آئے گی۔

جس پر وکیل نیب نے جواب دیا کہ ایک ہفتے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی نیب کے وکیل چوہدری اکبر تارڑ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کا موقف ہے کہ عدالت نے 5 ماہ کیس سنا اور ہر فریق کو مناسب موقع دیا گیا، جبکہ تحقیقات میں نیا ریکارڈ بھی سامنے آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز عدالت پر لازم نہیں، مجھے یقین ہے کہ عدالت فریقین کے حقوق کا خیال رکھے گی۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آج ہی اپنا تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے گی۔

پی ٹی آئی وکیل کا جواب الجواب

سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ثابت ہوگیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف زیڈ ای کمپنی کو وزیراعظم نے ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی اس کا چیئرمین ہونا اور تنخواہ وصولی ظاہر کی گئی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے تنخواہ نہیں لی۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ تنخواہ لینے اور نہ لینے کے اثرات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی پبلک آفس ہولڈر کی ملازمت کرنے پر پابندی ہے؟

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئین میں وزیراعظم کی کسی دوسری ملازمت کے بارے کچھ نہیں ہے۔

تاہم نعیم بخاری کا موقف تھا کہ پبلک آفس ہولڈر کی ملازمت مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ آئین میں پابندی ججز کی دوسری ملازمت کے لیے ہے کسی دوسرے آفس ہولڈر کے لیے نہیں ۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے سعودی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس کی خریداری کا بتایا، گلف اسٹیل ملز کی فروخت کے بارے میں بھی غلط بیانی کی گئی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اثاثے ظاہر نہ کیے گئے تو بددیانتی کہلائے گی، سوال یہ ہے کہ یہ ہمارا دائرہ اختیار ہوگا یا الیکشن کمیشن کا۔

انہوں نے مزید کہاکہ سوال یہ ہے کیا جو چیزیں درخواست میں نہیں ہمیں ان پر جانا چاہیے؟

جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تمام معاملات کی جانچ کا کہا ہے۔

مزید پڑھیں: 'حکومت جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد نہیں کرسکتی'

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ نئی چیزیں کیس میں شامل کر کے فریقین کو سرپرائز دیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بار ثبوت شریف خاندان پر ہے۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیملی سیٹلمنٹ کے وقت لندن کے فلیٹس زیر بحث نہیں آئے جو 1993 سے ان کے زیر استعمال تھے، قطری خطوط نکال دیں تو 96-1993 تک لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت بنتے ہیں، جبکہ ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ثابت ہوگئیں۔

نعیم بخاری کا مزید کہنا تھا کہ بہتر تھا کہ نواز شریف کہہ دیتے کہ لندن فلیٹس ان کے والد میاں شریف نے خریدے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ قطری سپریڈ شیٹ تو نہ ادھر کی ہے، نہ ادھر کی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کو بینفیشل مالک تسلم کر بھی لیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا، جبکہ مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔

اس موقع پر عدالتی بینچ نے جے آئی ٹی کے کام کو بھی سراہا اور کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی بساط سے بڑھ کر جن حالات میں کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔

شیخ رشید کا جواب الجواب

نعیم بخاری کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ صادق اور امین گلوبل تصور ہوتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ لاہور میں صادق اور اسلام آباد میں کرپٹ ہوں۔

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ 'جس کی طرف دیکھو بے نامی دار ہیں، شریف فیملی پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی جبکہ وزیراعظم نے تو دبئی والوں کو بھی چونا لگایا'۔

یہ بھی پڑھیں:پاناماکیس: 'منی ٹریل کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے سامنے بھی جعلی دستاویزات دیے جائیں تو کیا ہوگا۔

شیخ رشید نے کہا کہ عدالت منی ٹریل مانگ مانگ کر تھک گئی، یہاں تک کہا گیا کہ منی ٹریل لاؤ کلین چٹ دے دیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل کا جواب الجواب

شیخ رشید کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہو چکے ہیں، جبکہ دو ججز پہلے ہی نااہلی کا فیصلہ دے چکے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے توفیق آصف کو ہدایت کی کہ اپنے نکات تحریری طور پر دے دیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل کی بات کے اختتام کے ساتھ ہی تمام فریقین کے دلائل مکمل ہوگئے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں