پی پی پی سے ن لیگ اور پھر ق لیگ: طارق عزیز کے سیاسی سفر کی کہانی

31 جولائ 2017
طارق عزیز کی میزبانی کے بھڑکیلے انداز نے جلد ہی انہیں ایک ستارے میں بدل دیا، جو وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے۔
طارق عزیز کی میزبانی کے بھڑکیلے انداز نے جلد ہی انہیں ایک ستارے میں بدل دیا، جو وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے۔

پاکستان میں گیم شوز کے میزبانوں کو حد سے بڑھ کر سیلیبرٹی کی حیثیت دی جا رہی ہے، جتنی عام طور پر شوبز کی کسی دوسری ممتاز شخصیت کو بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔

گزشتہ ایک دہائی سے، مختلف گیم شوز کے میزبان ٹی وی ناظرین کا ایک بڑا حصہ اپنی طرف متوجہ کرتے آ رہے ہیں (اور بے پناہ تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میزبانوں نے سیلیبریٹی ہونے کا فائدہ نہ صرف شو بزنس کے دیگر شعبوں (جیسے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور اشتہارات) میں قدم رکھنے کے لیے استعمال کیا بلکہ ان میں سے کئی نے تو سیاسی، اخلاقی اور مذہبی مسائل پر بے باک تبصرے کرنے کے لیے بھی اٹھایا۔

اور ان کے مداح انہیں سن رہے ہوتے ہیں، جن میں زیادہ تر لوگ انہیں ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو بے وقوفانہ سوالوں کے جواب دینے پر بے پرواہ ہو کر بڑے بڑے انعامات بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

جب یہ 'مخیر' خواتین و حضرات مذہب سے لے کر اخلاقیات تک اور حتیٰ کہ ملک کے خلاف ہو رہی بیرونی طاقتوں کی سازشوں کے بارے میں لوگوں کے علم میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں بڑی ہی غور سے سنا جا رہا ہوتا ہے۔

لیکن یہ سارا سلسلہ اتنا زیادہ پرانا نہیں، اس کی شروعات گزشتہ دہائی میں ہوئی جب حکومت نے پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ ان چینلز نے سرکاری چینل پی ٹی وی سے اس کی اجارہ داری چھین لی۔ مگر 21 ویں صدی کے جن گیم شوز کے میزبانوں کو جو شہرت اور جو حیثیت حاصل ہے، وہ 30 برس قبل ایک شخص کو بھی حاصل تھی۔

1983 میں جب میں کراچی کے ایک مقامی کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، تب میں نے فوراً ان طلبہ گروپس میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو جنرل ضیاء الحق کی سخت آمریت کے خلاف مختلف تحاریک میں پیش پیش تھے۔ اس وقت کراچی پریس کلب شہر کے ضیاء مخالف دانشوروں، میڈیا کے لوگوں، اور طلبہ کا مرکز بن چکا تھا۔

ستمبر 1983 میں جب نو جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے شروع کی جانے والی ضیاء مخالف مہم، ایم آر ڈی، سندھ میں اپنے عروج پر تھی تب میں نے کالج کے چند ساتھیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب میں منعقد مشاعرے میں شرکت کی۔ مشاعرے میں وہ ترقی پسند شعراء شرکت کر رہے تھے جو فیض احمد فیض، احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کی طرح جلاوطن نہیں ہوئے تھے۔

جب مشاعرے کے میزبان (جو غالباً کراچی پریس کلب یونین کا ایک ممبر ہی تھا) نے شرکاء کے نام پڑھنا شروع کیے تو ان میں طارق عزیز کا نام بھی تھا۔ میں نے انہیں اسٹیج پر آتے نہیں دیکھا تھا، لیکن مشاعرے کے حاضرین، جن میں زیادہ تعداد دانشوروں، صحافیوں (اور ان کے گھر والوں) اور کالج اور یونیورسٹی طلبہ کی تھی، طیش میں آ گئے اور چلانا شروع کر دیا کہ، "طارق عزیز کو باہر نکالو!" میں نے انہیں دیکھا تو نہیں تھا مگر سننے میں آیا کہ وہ راستے میں ہیں اور پریس کلب کی طرف آ رہے ہیں۔

طارق عزیز معروف شاعر تو نہیں تھے لیکن انہیں شعر لکھنے اور مختلف اردو شعراء کی لکھی شاعری پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ اسٹیج پر آنے میں تو کامیاب نہیں ہو پائے تھے لیکن ان کے نام پر حاضرین کا رد عمل غصے سے بھرپور تھا۔ اس وقت طارق عزیز صرف ایک ٹی وی گیم شو، نیلام گھر کے میزبان تھے، جو پی ٹی وی پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام تھا اور ان کی مقبولیت اس وقت کے معروف ٹی وی اور فلمی اداکاروں اور کرکٹ اور ہاکی کے ستاروں سے بھی زیادہ تھی۔

شو میں شرکت کے لیے پاسز مانگنے والے مرد و خواتین شو کے پروڈیوسرز کو مسلسل تنگ کرتے رہتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب بیوروکریٹس، بڑے بڑے تاجروں، فوجی افسران اور سیاستدانوں نے شو میں شرکت کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی بھی کوشش کی۔

لیکن آج کے گیم شو میزبانوں کی طرح، ان کے جتنے مداح تھے اتنے ہی ایسے بھی لوگ تھے جنہیں وہ نہیں بھائے۔ لیکن ان کی کہانی، موجودہ میزبانوں کے برعکس، کافی گہری ہے۔

1936 میں پیدا ہونے والے طارق عزیز نے (1950 کی دہائی کے وسط میں) اپنے کالج میں خود کو ایک "سوشلسٹ" کہلوانا شروع کیا۔ گریجوئیشن کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر کام کرنا شروع کیا اور پھر انہیں 1964 میں پی ٹی وی کے افتتاح کے موقعے پر تعارفی اعلان کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یوں وہ پاکستان میں ٹی وی پر آنے والے اولین افراد میں سے ایک بنے۔ انہوں نے ان دنوں کی خوشحال اردو فلم انڈسٹری میں بطور ایک کریکٹر اداکار قدم رکھا۔ وہ چند فلموں میں مرکزی کردار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے لیکن ان کا فلمی کریئر کچھ خاص متاثر کن نہ تھا۔

1960 کی دہائی کے اواخر میں، طارق عزیز کو ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے محبت ہو گئی تھی اور وہ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی عوامی سیاسی جماعت پی پی پی کے رکن بن گئے۔

صحافی محمود شام نے 1976 میں لکھی گئی اپنی مشہور کتاب، لاڑکانہ ٹو پیکنگ، میں طارق عزیز کو ایک جوشیلے انقلابی کے طور پر بیان کیا ہے۔ غلام اکبر اپنی 1989 کی کتاب 'ہی واز ناٹ ہینگڈ' میں لکھا ہے کہ طارق عزیز ایک "جوشیلے سوشلسٹ" تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی ریلیوں میں انقلابی نعروں سے شرکا میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ ان ریلیوں میں طارق عزیز اپنے ساتھ فلم کیمرا بھی ساتھ لے جاتے تھے اور انہوں نے ایسی کئی ریلیوں کو فلم کی صورت میں محفوظ کیا۔ جب پی ٹی وی کے پاس موجود ذوالفقار علی بھٹو کی ریلیوں کی فوٹیج کو ضیا حکومت نے برباد کر دیا تھا تو 1990 کی دہائی سے طارق عزیز کی فلمبند کردہ ریلیوں کی فوٹیجز کو ہی دکھایا جاتا رہا ہے۔

1974 میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے کوئز شو 'شیشے کا گھر' سے متاثر ہو کر طارق عزیز اور عارف رانا نے زیادہ عوامی سطح پر گیم شو پیش کرنے کا سوچا۔ یوں جنم ہوا نیلام گھر کا، جو کہ 1975 میں کراچی سے نشر ہوتا تھا۔ وہ گیم شو تھوڑے ہی عرصے میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔

طارق عزیز کی میزبانی کے بھڑکیلے انداز نے جلد ہی انہیں ایک ستارے میں بدل دیا، جو وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے۔ 1977 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کے بعد بھی یہ پروگرام نشر ہوتا رہا۔ بلکہ 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے تک طارق عزیز کی ضیا آمریت سے قربت پیدا ہو گئی تھی۔

جولائی 1997 میں طارق عزیز پر ہیرالڈ میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق طارق عزیز نے فوجی حکومت کے ساتھ جو "سمجھوتے" کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنے شو میں "مذہبی جذبات شامل" کریں گے اور حکومت کے "قدامت پسند نظریے" کو بڑھاوا دیں گے۔ اسی وجہ سے ہی کراچی پریس کلب میں منعقد مشاعرے کے شرکاء نے ان کا نام سنتے ہی غصے کا اظہار کیا تھا۔

اور اسی وجہ سے 1988 میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نیلام گھر شو منسوخ کر دیا۔ طارق عزیز سیخ پا ہو گئے اور شو کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ 1996 میں طارق عزیز، جن کے ابھی بھی بڑی تعداد میں مداح تھے، نے دائیں بازو کی مرکزی جماعت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی اور 1997 میں وہ لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

شریف حکومت نے طارق عزیز کو ان کا شو پی ٹی وی پر دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ شو کا نام بدل طارق عزیز شو رکھا گیا، مگر یہ شو 70 اور 80 کی دہائیوں میں ملنے والی شہرت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

بعد ازاں طارق عزیز نے مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لی اور جنرل پرویز مشرف کی حامی پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہوں نے 1990 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف مشرف کی بغاوت کو سراہا مگر وہ اپنی نئی پارٹی میں زیادہ دکھائی نہیں دیے اور جلد ہی انہیں ایک طرف کر دیا گیا۔

81 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود، طارق عزیز اب بھی اپنی کھوئی ہوئی شہرت تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پی ٹی وی پر بزم عزیز کے نام سے شو کرتے ہیں لیکن اس شو کو پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے بھڑکیلے اور شیخی باز گیم شوز نے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان شوز کے چند میزبانوں کو طارق عزیز نامی شخص کے بارے میں یا تو بہت کم یا بالکل بھی پتہ نہیں— وہ، حقیقی طور پر ایک وقت میں کئی کام انجام دینے والے پاکستانی ٹی وی گیم شو میزبان ہیں۔

یہ مضمون 30 جولائی 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Sohail Kashif Jul 31, 2017 12:19pm
writer ne darya ko koozay main samanay ki koshish ki hai or Tariq Aziz sb ki siyaasi zindagi pr zyada focus rakha hai jo mere khayal main thori c zyadti hai, Taiq Aziz ek buht he bazouq or kutub beeni se shaghaf rakhne wala insan bhi hai jis ko hazaron shair az bar hain wo bhi shair k naam k sath, is k ilawa agr ap un k interviews sunain ya dekain tou ap ko andaza hota hai k un ki maloomaat ka daira kaafi wasee hai or muktalif mozoaat pe kaafi gehrai se tabsra farmatay hain or mere khayal main aaj k so called anchor+scholar type logon se kahin zyada maloomaat rakhte hain is k ilawa jab bhi game shows ka naam aye ga tou unko ek trend setter k tor pe zarur yad rakha jaye ga
Yousuf Jul 31, 2017 01:10pm
Tariq Aziz, Nawaz Sharif ke dosray dor e hokomat mein supreme court par hamla karane walo mein shamil tha. Unki tasweer jamam baray akhbarat ki zeenat bani. Meire khiyal mein sirft os case se bachne kelie woh Musharaf hokomat/q league mein shamil hoe thay.
Mohammad Ali Mahar Aug 01, 2017 05:40am
In 1987, a Pakistani troupe came to our university in USA with a comedy play. The actors of the play included Tariq Aziz. In the evening after the play, a dinner was hosted by the Pakistan Students Association in our on-campus apartment building in honor of Pakistani guests. Zia ruled in Pakistan those days and Tariq was trying to be on his right side. After the dinner, he was asked to say a few words. In his speech he started lambasting Bhutto sahib and PPP and praising Zia and his policies. After the speech, one of the students got up and asked how he could talk against PPP when he himself had been a part of the party. At which a wicket smile appeared on his face for a moment. Then with a grimace, he said "haan. Woh ek lehr thhi jis mein hum bhi beh gaye thhey" as if he was really ashamed of having been a part of such an evil group. I realized at that moment how big a hypocrite he was.