ویسے تو بولی وڈ میں ہر موضوع پر، معیاری اور بہترین فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں، اور انہیں سراہا بھی جاتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ بولی وڈ میں ایسی فلموں کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو عام موضوعات سے ہٹ کر بنائی جاتی ہیں، جن میں سماج کی سچائی کو دکھایا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ بولی وڈ کی کئی فلموں میں آئٹم سانگ شامل تو کرلیے جاتے ہیں، لیکن ان پر پرفارمنس دینے والی ہیروئنز کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا، اور نہ ہی آئٹم سانگ میں پرفارمنس کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

بھارت نے 15 اگست کو اپنا 70 واں جشن آزادی منایا، لیکن اس دن بولی وڈ میں فلمی آزادی زیر بحث رہی، اور بھارتی میڈیا نے بھی اس حوالے سے اہم رپورٹس شائع کیں۔

بولی وڈ لائف کے مطابق بھارت کو انگریزوں سے آزادی حاصل کیے ہوئے تو 70 سال ہوگئے، لیکن فلم انڈسٹری اب بھی بہت سارے معاملات میں قید و پابندی کا شکار ہے، جسے اب ختم ہونا چاہیے۔

آئٹم سانگ

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

رپورٹ کے مطابق فلم سازوں نے اپنی موویز کی کامیابی کے لیے فلموں میں آئٹم سانگز کو شامل تو کرلیا، مگر ان میں پرفارمنس کرنے والی اداکارائوں کی دیگر گانوں میں جوہر دکھانے والی ہیروئنز کی طرح نہیں دیکھا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: جوہی چاولہ اپنے آئٹم سانگ کی وجہ سے 'پریشان'

بولی وڈ میں اس ٹرینڈ کو ختم ہونا چاہیے، آئٹم سانگ کرنے والی اداکارائوں کو بھی تسلیم کرکے خواتین کی خودمختاری کی جانب قدم بڑھایا جائے۔

حساس موضوع پر بنی فلموں کے سیکوئل

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

ویسے تو بولی وڈ میں ایکشن اور کامیڈی فلموں کے سیکوئل ایک کے بعد ایک بن رہے ہیں، جن میں دھوم، دبنگ، گول مال، منا بھائی، ریس، مستی اور کرش جیسی فلمیں سرفہرست ہیں۔

مگر حساس موضوعات پر بنی فلموں کے نہ تو سیکوئل بنائے جاتے ہیں، اور نہ ہی انہیں اس طرح دیکھا جاتا ہے، جس طرح دیگر فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’لپ اسٹک انڈر مائی برقعہ‘ کی ریلیز خواتین کی جیت

بولی وڈ میں لپ اسٹک انڈر مائی برقعہ، فائر، گینگسٹر، فیشن، گیتا اور سیتا، پیج تھری اور ایسی ہی دیگر فلمیں بھی ہیں، جن کے نہ تو سیکوئل بنائے جاتے ہیں، اور نہ ہی انہیں مرد اداکاروں کی فلموں جیسا رتبہ دیا جاتا ہے۔

اداکاراؤں کا لباس و فیشن

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

یہ دیکھا گیا ہے کہ بولی وڈ میں مرد اداکاروں کے بجائے خواتین اداکارائوں کو ان کے فیشن اور لباس کی وجہ سے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ انہیں انٹرنیٹ پر ٹرول بھی کیا جاتا ہے۔

کسی فیشن میگزین یا برانڈ کے اشتہار کے لیے فوٹو شوٹ کرانے والی اداکارائوں کو بھی انہیں ان کی بولڈ اور مختصر لباس والی تصاویر پر تضہیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لباس وانداز پر تضحیک کا نشانہ بننے والی بھارتی اداکارائیں

بولی وڈ میں اقربا پروری

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنے ہی بچوں، بھائی، بہنوں اور رشتہ داروں کو متعارف کرانا سالوں پرانی بات ہے، لیکن حالیہ سالوں میں اس روش پر بحث ہونے لگی ہے۔

حال ہی میں اقربا پروری کے موضوع پر بات کرنے والی اداکارہ کنگنا رناوٹ کو مرد اداکاروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا، جب کہ اس حساس موضوع پر کنگنا کے علاوہ کوئی کھل کر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔

بولی وڈ اداکاروں کے مطابق اقربا پروری ہر انڈسٹری میں موجود ہے، اس لیے اسے فلم انڈسٹری سے بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔

صنفی تفریق

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

یہ بھی پڑھیں: 'اقرباء پروری اور کنگنا پر دوبارہ بات نہ کرنے کا عہد'

ویسے تو صنفی تفریق دنیا بھر میں موجود ہے، اور یہ سلسلہ ہولی وڈ سے لے کر بولی وڈ اور ٹیکنالوجی انڈسٹری سے لے کر سیاست تک پھیلا ہوا ہے۔

لیکن بولی وڈ میں اس کا کچھ زیادہ ہی اثر ہے، جہاں خواتین اداکارائوں کو نہ صرف مردوں کے مقابلے کم معاوضہ دیا جاتا ہے، بلکہ انہیں 40 سال کے بعد بہت کم ہی ہیروئن کے طور پر فلم میں کاسٹ کیا جاتا ہے۔

بولی وڈ میں جہاں سنجے دت، سلمان خان، عامر خان، شاہ رخ، اکشے کمار اور اجے دیوگن جیسے اداکار 50 اور 55 سال کی عمر میں بھی ہیرو بنتے ہیں، وہیں روینا ٹنڈن اور تبو جیسی 40 اور 42 سال کی اداکارائوں کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ نہیں کیا جاتا۔

تبصرے (0) بند ہیں