فلم ریویو: ’ساون‘

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2017
سچے واقع پر مبنی فلم ’ساون‘ پولیو کی بیماری کی کہانی بیان کرتی ہے۔
سچے واقع پر مبنی فلم ’ساون‘ پولیو کی بیماری کی کہانی بیان کرتی ہے۔

پاکستان میں معاشرتی مسائل پر بنائی جانے والی فلموں کی تاریخ زیادہ طویل نہیں، اس طرح کی فلم سازی کو آرٹ یا پیررل سینما بھی کہا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے، فیچرفلموں کے بجائے زیادہ تر دستاویزی فلمیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں پاکستان کے عوام الناس میں زیادہ مقبولیت نہیں ملتی، مگر ابھی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ساون‘‘ ایک خوشگوار اقدام ہے۔ یہ ایک سچے واقعہ پر مبنی فلم ہے۔ اس طرح کی فلموں سے پاکستان میں آرٹ سینما مضبوط ہوگا اور معاشرتی مسائل کے حل اور عوامی شعور کو بیدار کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

اس فیچر فلم کے ذریعے پاکستانی معاشرے کے ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کیا ہے اور وہ مسئلہ’’پولیو کی بیماری‘‘ ہے، اسی کے ساتھ پاکستان کے دیگر مسائل، جن میں دیہی علاقوں کا کٹھن طرز زندگی، پانی اور خوراک کی کمی، دیگرسہولتوں کی عدم دستیابی، ذہنی پسماندگی، قبائلی نظام کا جبر، بردہ فروشی سمیت دہشت گردی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کم بجٹ میں سلیقے سے بننے والی یہ فلم اب تک دنیا کے مختلف فلمی میلوں میں 3 ایوارڈز بھی اپنے نام کرچکی ہے، جن میں اٹلی کے سوشل ورلڈ فلم فیسٹیول اور اسپین کے میڈرڈ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول شامل ہیں۔ 15ستمبر،2017 کو یہ فلم پاکستان بھر کے سینماؤں کی زینت بنی ہے۔ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس فلم کو 90ویں آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

کہانی:

کہانی کے پس منظر میں صوبہ بلوچستان کا ایک گاؤں دکھایا گیا ہے، ویسے اس کی تمام عکس بندی اسکردو، بلتستان اور وہاں کے نواحی علاقوں میں ہوئی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار’’ساون‘‘ نامی بچہ ہے، جو پولیو کی وجہ سے معذور ہے۔ گاؤں میں قحط سالی کے بعد، تمام مکین نقل مکانی کر جاتے ہیں، حتیٰ کہ اس بچے کے والدین بھی۔ وہ گاؤں میں اکیلا رہ جاتا ہے۔ قحط سالی کے شکار گاؤں میں، وہ معذور بچہ کس طرح زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے، یہ فلم انہی حالات کو بیان کرتی ہے۔ ذیلی موضوعات کے طور پر قبائلی نظام کی خرابیاں، سیاست کا جبر، بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی سمیت دیگر مختلف موضوعات کو اس کہانی میں مختصر طور پر سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہانی نویس مشہود قادری نے نہایت عمدہ طریقے سے تمام موضوعات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے، البتہ مکالموں میں مزید بہتری لائی جا سکتی تھی۔ فلیش بیک میں کہانی پیش کرنے کی ترکیب نے بھی فلم بینوں کی دلچسپی کو برقرار رکھا۔

فلم سازی و ہدایت کاری:

یہ کلاکار فلم ساز کمپنی کے تحت بنائی گئی ایک چھوٹے بجٹ کی فلم ہے، جس میں محدود وسائل کا استعمال بہتر طریقے سے کیا گیا۔ مشہود قادری چونکہ اس فلم کے کہانی نویس اور فلم ساز بھی ہیں، اس لیے وہ بہترطورپرسمجھتے ہوں گے کہ اس کہانی کو کس طرح کے پس منظر میں فلمایا جائے، تاہم اس معاملے میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ فلم کے ہدایت کارفرحان عالم ہیں، جن کا تعلق سینما فوٹوگرافی کے شعبے سے ہے اور بطور ہدایت کار ان کی یہ پہلی فلم ہے۔ اس فلم کی لوکیشن خوبصورت ہونے کی وجہ سے، کہانی اور کرداروں کو اسکرین پر خوبصورتی سے دکھانے میں انہیں آسانی رہی، البتہ کئی مناظر عکس بند کرنے میں مشکل بھی ہوئی ہوگی، جس طرح فلم کے ابتدائی کچھ مناظر میں، فریم غیر متوازن تھا، ساکت منظر عکس بند ہورہا تھا جبکہ کیمرے میں لرزش تھی، کیمرہ ایک جگہ اسٹل کرکے مناظر عکس بند کیے جاتے تو فلم کے ان ابتدائی مناظر میں مزید جان پڑجاتی، اس کے علاوہ مجموعی حیثیت میں فلم کا فریم ورک اچھا رہا۔ فلم کی ایڈیٹنگ بولی وڈ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ایڈیٹر اسیم سنہا نے کی، جبکہ موسیقار ہولی وڈ کے ایمرایسلے تھے۔ صوتی تاثرات کے لیے بھی بین الاقوامی ماہر اور ساؤنڈ ایکسپرٹ اکیڈمی کے ایوارڈ یافتہ جسٹن لبنگ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ فلم میں انڈین گلوکار چرنجیت سنگھ اور پاکستانی گلوکار اختر چنال زہری نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ فلم میں تھیم سونگ کے طور پر استاد نصرت فتح علی خان کی معروف قوالی ’مکے گیا گل نہ مکدی اے‘ کو دوبارہ سے کمپوز کرکے استعمال کیا گیا، جس نے لطف دیا۔

اداکاری:

فلم کا مرکزی کردار’’ساون‘‘ معذور بچہ ہے، اس کردار کو سید کرم عباس نے نبھایا۔ یہ ان کی پہلی فلم ہے، جس میں وہ کافی حد تک متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے ساتھ دیگر اور کچھ بچوں نے بھی اداکارانہ جوہر دکھائے اور اچھا کام کیا۔ دیگر فنکاروں میں سلیم معراج، نجیبہ فیض، عارف بہالیم، عمران اسلم، ٹیپو شریف، حفیظ علی، سحرش قادری، سہیل ملک، شاہد نظامی، محمد عباس، دانیال یونس، مہک ذوالفقار، سید محمد علی، لیفٹیننٹ جنرل ایس اے اے نجمی(ریٹائرڈ) کے علاوہ ایک چھوٹے سے کتے لائم نے بھی اداکاری کی ہے۔ افغان نژاد پاکستانی اداکارہ نجیبہ فیض ،عارف بہالیم اور سلیم معراج نے اپنی اداکاری سے کہانی میں جان ڈال دی۔ معروف اداکار ندیم بیگ مہمان اداکار کے طور پر ابتدائی منظر میں نظر آئے، جبکہ فلم ساز اور کہانی نویس مشہود قادری بھی مہمان اداکار کے طورپر دکھائی دیے۔

نتیجہ:

عالمی فلمی دنیا میں تو اس فلم کو بہت مقبولیت مل رہی ہے۔ اب تک دنیا کے پانچ بڑے فلمی میلوں میں اس کی نمائش ہوئی ہے اور دو فلمی میلوں میں تین ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان میں اس کی ریلیز کے پہلے دن حاضری کا تناسب 10 فیصد تھا، جس کی وجہ شاید پاکستانی معاشرے میں ایسے موضوعات پر فلموں کو نہ دیکھا اور دکھایا جانا ہے یا شاید پھر اس فلم کا مرکزی موضوع ’’پولیو کی بیماری‘‘ اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات، ابھی تک ہمارے معاشرے میں متنازعہ ہیں۔ پاکستان کا ایک بڑا نشریاتی ادارہ بھی اس فلم کا تشہیری حصے دار ہے، شاید وہ بھی اس فلم کے مثبت پہلوؤں کو عوام میں اجاگر کرنے میں ناکام رہا۔ اس لیے یہ فلم دنیا میں تو مقبول ہوئی ہے، مگر پاکستان میں باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوگی۔


لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں