اسلام آباد: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سینیٹرز سے قومی سلامتی پر خطاب سے ایک روز قبل سینیٹ میں فوج کو کاروباری سرگرمیوں سے روکنے اور انہیں دفاعی معاملوں تک محدود کرنے ککے لیے تحریک پیش کردی گئی۔

تحریک پر بحث کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس کے دوران کہا کہ فوج سے کاروباری اور کمرشل سرگرمیوں کے منصوبے واپس لے کر انہیں نجی شعبوں کو دیا جانا چاہیے تاکہ نجی شعبوں کو زیادہ سے زیادہ کاروبار کرنے کے مواقع مل سکیں۔

انہوں نے سینیٹ میں فوج کے 50 سے زائد کاروبار کی تفصیلات پیش کیں، جن میں سیمنٹ، فرٹیلائزر، چینی کی پیداوار، بینکنگ، اور رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر کے سامنے آنے پر تحریک میں کہا گیا کہ کانٹریکٹ کو بغیر بولی پر اور فوجی اداروں کو دیئے جانے والے قرض پر کیے جانے والے سوالات کا جواب دستیاب ہی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں امریکی فیصلے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور

ان کا کہنا تھا کہ ٹول پر جمع کی جانے والی لاکھوں روپے کی رقم فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو بغیر بولی کے دے دی جاتی ہے جبکہ فوجی حکمراں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں بننے والے پل کے افتتاح سے قبل ہی گر جانے کے معاملے سے نیشنل لوجسٹکس سیل بغیر کسی کارروائی کا سامنا کیے باہر آجاتا ہے۔

قبل ازیں چیئرمین رضا ربانی نے سینیٹ کو بتایا کہ جنرل باجوہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا کے ہمراہ سینیٹ کی کمیٹی کو سیکیورٹی کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے اور ان کے حالیہ بین الاقوامی دوروں، جن میں خصوصی طور پر ایران اور افغانستان شامل ہیں، پر مسلح ادارے کا نظریہ پیش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بریفنگ کے بعد اجلاس میں وقفہ سوالات بھی ہوگا۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کو 12 دسمبر کو خط لکھ کر کمیٹی میں دعوت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں غیر مسلموں کیلئے حلف نامے میں تبدیلی کا بل پیش

انہوں نے کہا کہ جمعرات کے روز انہیں جواب موصول ہوا کہ دعوت نامہ قبول کیا جاچکا ہے جس پر انہوں نے پارلیمانی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا تھا۔

اجلاس کے دوران حکومت کی جانب سے امریکا کو پاکستان کی حدود میں 2000 کے بعد سے ہونے والے ڈرون حملوں سے معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ ادا کرنے پر قرارداد بھی منظور کی گئی۔

اس قرار داد کو حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیش کیا گیا تھا جس میں حکام کو ہدایت جاری کی گئیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، نیٹو، یورپین یونین اور کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن (ایشیا) کو اس قرارداد کی کاپیاں ارسال کی جائیں، جس میں ڈرون حملوں سے متاثرہ افراد پر سماجی معاشی اور ذہنی اثرات کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔

27 بین الاقوامی این جی اوز کو کام نہ کرنے کی ہدایت

علاوہ ازیں وزیر مملکت برائے دفاع طلال چوہدری نے سینیٹ کو بتایا کہ 27 بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے (آئی این جی او) کو پاکستان میں اپنی سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کو اپنے دفتروں کو بند کرنے کی بھی ہدایت جاری کردی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت 139 آئی این جی اوز نے رجسٹریشن کی درخواست دی تھیں جن میں سے 66 کو ان کے منصوبے کی منظوری کے بعد پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا 21 بین الاقوامی این جی اوز کو سرگرمیاں بند کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ پابندی کا سامنا کرنے والی 27 آئی این جی اوز میں سے 6 کو جواب نہیں دینے پر کام کرنے سے روکا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پابندی کا سامنا کرنے والی آئی این جی اوز کے پاس وزیر داخلہ احسن اقبال کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں پالیسی کے تحت 90 دنوں کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔


یہ خبر 19 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

اشرف Dec 19, 2017 11:59am
ھاں جو تھوڑے سے ادارے ٹھیک چل رھے ھیں ان کو بھی پی آئ اے اور سٹیل مل بننا چاہیئے