میانمار بحران: ’نوبل انعام یافتہ قونصلر میں اخلاقی فقدان ہے‘
امریکا کے سفارتکار بل رچرڈ سن نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی جانب سے روہنگیا بحران پر مشاورت کے لیے تشکیل کردہ پینل سے استعفیٰ دے دیا۔
واضح رہے کہ بل رچرڈ سن ان پانچ بین الاقوامی اراکین میں شامل تھے جنہیں آنگ سان سوچی کی حکومت نے روہنگیا کمیونٹی کی خدمات کے مشاورتی پینل کے لیے منتخب کیا تھا۔
یہ پڑھیں: میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف
فرانسیسی خبر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رچرڈ سن نے مشاورتی پینل کو محض ایک ‘وائٹ واش’ یعنی حقائق کو پس پشت ڈالنے کے لیے حربہ قرار دیا اور کہا کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی میں ‘اخلاقی قیادت’ کا فقدان ہے۔
اس حوالے سے بل رچرڈ سن نے بتایا کہ روہنگیا بحران کی کوریج کرنے والے گرفتار دو صحافیوں کی رہائی پر آنگ سان سوچی ‘سیخ پا’ ہو گئیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 3 لاکھ 86 ہزار افراد نے نوبل انعام دینے والی کمیٹی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ برما کی قونصلر آنگ سان سوچی سے امن کا نوبل انعام واپس لیے لیکن کمیٹی نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
میانمار حکومت کے ترجمان نے نیو میکسیکو کے سابق گورنر رچرڈ سن کی جانب سے کڑی تنقید پر جواب دیا کہ ‘انہیں ریاست کی قونصلر کے بارے میں ‘ذاتی نوعیت کے ریمارکس’ دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا’۔
ترجمان نے کہا کہ ‘دونوں رپورٹرز کے حوالے سے ان کے جذبات سمجھ سکتے ہیں لیکن انہیں الزام تراشی کے بجائے میانمار قوم اور ریاستی قونصلر کے بارے میں تھوڑا سوچنا چاہیے’۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار :’فوج مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف‘
میانمار حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘مشاورتی اجلاس میں زیر حراست صحافیوں کا مقدمہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا اور انہیں آنگ سان سوچی کے سامنے یہ مسئلہ اٹھانے سے گریزاں رہنا چاہیے تھا’۔
خیال رہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے دونوں رپورٹر میانمار کے شہری ہیں، جنہیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت 14 برس کی سزا سنائی گئی تھی۔
کہا جارہا ہے کہ دونوں رپورٹرز رخائن میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد پر رپورٹنگ کررہے تھے۔
مزید پڑھیں: میانمار فوج کی ’نسل کشی‘ مہم میں خواتین سے ریپ کا انکشاف
میانمار فوج اور انتہا پسند بدھ مت نے روہنگیا مسلمانوں کے ہزاروں گاؤں نذر آتش کیے اور تقریباً 7 لاکھ سے زائد روہنگیا افراد نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کی۔
رچرڈ سن کا استعفیٰ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب بنگلہ دیش اور میانمار حکومت کے مابین روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر مشتمل 23 جنوری کی تاریخ طے تھی لیکن متاثرین کی واپسی کے حوالے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
رچرڈ سن بطور عام شہری میانمار مشاورتی بورڈ کا حصہ بنے لیکن انہوں نے واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارمنٹ سے اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا۔
میانمار سے واپسی پر انہوں نے بتایا کہ وہ میانمار اتھارٹی، میڈیا، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے گروپس اور عالمی کمیونٹی سمیت اپنے کچھ دوستوں کے متنازع رویہ پر انتہائی حیران ہوئے۔
خیال رہے کہ چین کی حکمراں جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے حکام نے کہا تھا کہ چین میانمار حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں جائے گی۔
پارٹی کے نائب وزیر برائے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ کا روہنگیا ‘باغیوں’ کی جانب سے میانمار فورسز پر حملوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ بیجنگ پرتشدد واقعات کی مذمت کرتا ہے اور امن کی بحالی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں پر فوجی کریک ڈاؤن کو ‘نسل کشی کی کتابی مثال’ قرار دیا تھا۔
یہ خبر 25 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی