سیاست کو ناممکن کو ممکن بنانے کا آرٹ کہا جاتا ہے، اور اگر بات پاکستان کی ہو تو یہاں ایک مقبولِ عام رہنما، چاہے وہ جتنا یا جتنی بھی متنازعہ ہو، کو صرف ایک واقعے، مثلاً فوجی بغاوت یا تازہ ترین فیصلے کی طرح کے عدالتی فیصلے کی وجہ سے غیر مؤثر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اگر کوئی شخص گزشتہ چند ماہ میں نواز شریف کے سیاسی رویے کا بغور جائزہ لیتا رہا ہے، بالخصوص سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد سے، تو یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ وہ تازہ ترین فیصلے کے بعد اپنے رویے اور حربوں میں کوئی تبدیلی لائیں گے۔

درحقیقت تمام اشارے تو یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ خود کو عوامی حمایت کے ذریعے بے گناہ قرار دلوانے کی اپنی مہم میں مزید جارحیت لے آئیں گے۔

ان کے چند قریبی لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے مطابق اب ان کے پاس پے در پے عدالتی فیصلوں اور کردار کشی کی مہم کے بعد کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے جس کا مقصد ہی شریف خاندان کو ملکی سیاست سے بے دخل کرنا ہے۔ چنانچہ نواز شریف کی پالیسی شاید یہی رہے۔

مزید پڑھیے: انتخابی اصلاحات کیس: نواز شریف پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار

مگر جب پارلیمانی سیاست کی بات آئے تو مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہوگا۔ ماہرین کے مطابق سابق وزیرِ اعظم کے پاس اپنی سیاسی بقاء کے لیے صرف ایک ہی آپشن باقی ہے، یعنی آئین کی شق 62 (1) (ف) کے تحت اراکینِ پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت کے تعین کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار۔

یہی وہ انتخاب ہے جو اس وقت نواز شریف کے پاس پارلیمانی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لیے قانونی اور آئینی طور پر موجود ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ انہوں نے سیاسی اور قانونی ماہرین کے مطابق نااہلی کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بننے والے 5 رکنی بینچ نے دوسرے آئینی سوالات کے ساتھ ساتھ آئین کی شق 62 (1) (ف) کی تشریح چاہنے والی اپیلوں پر بھی سماعت مکمل کرلی ہے اور اب بس فیصلے کا انتظار ہے۔

فیصلہ نہ صرف نواز شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا، بلکہ ان کئی قانون سازوں کا بھی جنہیں ماضی میں مختلف وجوہات کی بناء پر نااہل قرار دیا جاتا رہا ہے۔

فیصلہ اس تنازعے کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا کہ آیا اراکینِ پارلیمنٹ کی نااہلی ایک معلوم مدت کے لیے ہونی چاہیے یا پھر زندگی بھر کے لیے۔

پچھلی مرتبہ جب یہ کیس 2016ء میں سنا گیا تھا تو جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس تھے۔ ایک سماعت کے دوران جسٹس جمالی نے حیرت کا اظہار کیا کہ آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت کوئی شخص ساری زندگی کے لیے کیسے نااہل ہوسکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ نااہل ہونے کے بعد وہ اشخاص خود کو اتنا بہتر بنا لیں کہ ان شقوں کے معیار کے مطابق دوبارہ اہل قرار دیے جائیں۔

قانونی مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے قانون سازوں کی نااہلی پر مختلف فیصلے دیے ہیں، مثلاً این اے 101 سے کامیاب ہونے والے افتخار احمد چیمہ کو 2015ء میں اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ضمنی انتخاب لڑا اور اپنی نشست دوبارہ حاصل کرلی۔

مگر رائے حسن نواز کے مقدمے میں فاضل عدلیہ نے انہیں شق 62 (1) (ف) کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ اسی طرح عدالت نے جمشید دستی کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی مگر رضوان گِل، ثمینہ خاور حیات اور عامر یار کو اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا۔

نواز شریف کے مخالفین حیران ہیں کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹا دیے جانے کے باوجود پارٹی کی صفوں میں کوئی ہلچل نہیں اور ان کا یہی کہنا ہے کہ فیصلہ ان کی ’توقعات کے مطابق‘ تھا اور دوسرا یہ کہ وہ اس سے بھی زیادہ کڑے وقت سے گزر چکے ہیں جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا بلکہ انہیں جبری جلاوطنی پر بھی بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیے: کوئی تو مریم نواز کو آئین کا سبق پڑھا دے

جب مسلم لیگ (ن) کے ایک عہدیدار سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد پارٹی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پارٹی اُس وقت کو گزار کر واپس آسکتی ہے تو پارٹی کو ایسے وقت میں تو بالکل پریشان نہیں ہونا چاہیے جب پنجاب کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی اُس کی حکومت ہے۔‘

مسلم لیگ (ن) کے لیے واحد پریشانی سینیٹ انتخابات ہیں جس کے بعد پارٹی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔ اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے وقت بھی مسلم لیگ ن کی سینیٹ میں اکثریت تھی اور اب یہ ایک بار پھر اکثریت کی توقع رکھے ہوئے ہے۔

بھلے ہی قانونی ماہرین، بشمول ان کے جنہوں نے سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ء کو چیلنج کیا تھا، کا ماننا ہے کہ فیصلے سے سینیٹ انتخابات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، مگر پھر بھی مسلم لیگ (ن) کے چند حلقوں کے اندر خوف ہے کہ ’پارٹی کے خلاف کھیل کھیلنے والوں‘ کے پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے منصوبے ہیں تاکہ جمہوری مرحلے کو پٹڑی سے اتارا جا سکے۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’ہاں، ہم پارٹی یا نواز شریف کے لیے نہیں بلکہ ملک اور جمہوریت کے لیے فکرمند ہیں۔‘ میڈیا اور سیاسی حلقوں میں گزشتہ چند ماہ سے سینیٹ انتخابات کے ملتوی ہونے کے حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تازہ ترین فیصلے کے بعد پارٹی کو اب اس حوالے سے سنگین تشویش ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لودھراں سمیت دیگر ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھتے دیکھے ہیں۔

مشاہد اللہ خان نے پُراعتماد انداز میں کہا کہ ’جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں مدد دے گا۔‘

قانونی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مبہم ہے اور عدالت کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مخصوص حکم کہ ’نواز شریف کا تمام متعلقہ دستاویزات سے بحیثیت مسلم لیگ (ن) کے صدر/پارٹی سربراہ کے طور پر نام ہٹا دیا جائے‘ کی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے حوالے سے مزید تشریح کی جانی چاہیے۔

ماہرِ قانون اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر کے مطابق گیند اب الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔ فاضل عدالت کے فیصلے میں موجود ابہام کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اب سینیٹ انتخابات کے ایک نئے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ پارٹیوں کو امیدوار منتخب کرنے کے لیے مزید وقت مل سکے۔

ایس ایم ظفر کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی اب بھی قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ آزاد حیثیت میں انتخابات لڑسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی بھی خطرناک صورتحال جنم لیتے ہوئے نہیں نظر آ رہی، اور یہ کہ میری دعا ہے کہ سینیٹ انتخابات وقت پر ہوں۔‘

مزید پڑھیے: کیا نواز شریف تاحیات نااہل ہوگئے؟

اسی طرح نااہل قرار دیے گئے شخص کو سیاسی جماعت کی سربراہی کی اجازت دینے والے الیکشن ایکٹ 2017ء کی شقوں کو چیلنج کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے 2 سابق چیئرمین سینیٹ نیّر بخاری اور فاروق نائیک کا بھی یہ کہنا ہے کہ اب الیکشن کمیشن کو مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تمام جماعتوں اور امیدواروں کو سینیٹ انتخابات لڑنے کا مساوی موقع فراہم کرنا چاہیے۔

فاروق نائیک کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی پر صرف امیدوار، تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے دستخط ہونے چاہیئں جن کا ووٹر ہونا ضروری ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی امیدوار کسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور وہ کاغذاتِ نامزدگی میں دیے گئے خانے میں پارٹی کا نام لکھا ہے تو اسے پارٹی سربراہ کا دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ بھی کاغذات کے ساتھ جمع کروانا ہوگا۔

سابق وزیرِ قانون فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو آزاد امیدوار تسلیم کرنے کا اختیار بھی موجود تھا اور اس چیز کا بھی کہ وہ فیصلے کی روشنی میں نئے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دے۔ ان کے مطابق اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس اب بھی کافی وقت موجود تھا کیوں کہ انتخابات میں ابھی 10 دن تھے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینیٹ کے امیدوار سینیئر وکیل کامران مرتضیٰ کی بھی یہی رائے ہے کہ عدالت کا فیصلہ سینیٹ انتخابات میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کو ملتوی کرنے کی کسی بھی کوشش کی تمام جماعتوں کو مخالفت کرنی چاہیے۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں، کیوں کہ لوگوں کو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی یا سیاسی جماعت بنانے کا حق دینے والی آئین کی شق 17 ایک آزاد شق ہے جس کا اراکینِ پارلیمنٹ کو اہل یا نااہل قرار دینے والی شق 62 اور 63 سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں