اسلام آباد: احتساب عدالت میں قومی احتساب بیور (نیب) کی جانب سے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کے ضمنی ریفرنس میں نامزد ملزمان صدر نیشنل بینک سعید احمد، منصور رضا اور نعیم محمود پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے تینوں ملزمان کو فرد جرم پڑھ کر سنائی،تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا، جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر نیب استغاثہ کے تینوں گواہوں کو طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ ملزمان پر نیب آرڈیننس کی دفعہ 9A5 اور 6 لگائی گئی جبکہ ملزمان پر اسحٰق ڈار کی جرم کے ارتکاب میں معاونت کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس: شریک ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی

سمات کے دوران ضمنی ریفرنس خارج کرنے کی درخواست مسترد ہونے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

احتساب عدالت کے جج کو بتایا گیا کہ شریک ملزم سعید احمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

اس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا احترام ہے لیکن ابھی وہاں سے کوئی حکم نہیں آیا، ملزمان پر فرد جرم عائد کردیتے ہیں، کوئی حکم آیا تو یہ کارروائی ختم ہوجائے گی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

دوران سماعت شریک ملزم منصور رضا رضوی نے گزشتہ سماعت پر ہونے والی بد مزگی پرعدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور بتایا کہ جاوید اکبر شاہ اب ان کے وکیل نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں ملزم منصور رضا رضوی کے وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر جاوید اکبر شاہ کی احتساب عدالت کے جج سے سخت جملوں کے تبادلے کے بعد عدالت کا ماحول تلخ ہوگیا تھا۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

3 اپریل 2018 کی سماعت کے دوران شریک ملزم منصور رضا رضوی کے وکیل جاوید اکبر شاہ کی احتساب عدالت کے جج سے سخت جملوں کے تبادلہ ہوا تھا، تاہم عدالت نے ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

28 مارچ کو ضمنی ریفرنس میں نیشنل بینک کے صدر سعید احمد سمیت نامزد دیگر 2 شریک ملزمان پر فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی تھی۔

20 مارچ کو نیشنل بینک کے صدر اور دیگر نامزد 2 ملزمان پر فردِ جرم عائد کی جانی تھی، تاہم عدالت نے سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔

28 فروری کو نیب نے نیشنل بینک پاکستان کے صدر سعید احمد کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے انہیں ریفرنس کی کاپی ارسال کردی تھی جس میں انہیں ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

23 فروری کو اسحٰق ڈار کے خلاف دائر عبوری ریفرنس میں تمام گواہوں کے بیانات مکمل ہوگئے جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے سابق وزیر خزانہ کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔

14 فروری کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جائیداد ضبط کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دیا تھا، یہ فیصلہ 7 فروری کو دلائل مکمل ہونے پر محفوظ کیا گیا تھا۔

8 فروری کو پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا احتساب عدالت میں پیش ہوئے تاہم اصل دستاویزات کی عدم دستیابی پر بیان ریکارڈ نہ ہو سکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار اثاثہ جات کیس: شریک ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

24 جنوری 2018 کو احتساب عدالت نے سماعت کے دوران ہجویری ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کے منجمند اکاؤنٹس جزوی طور پر بحال کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

22 جنوری 2018 کو پراسیکیوٹر کے 3 گواہان نے پیش ہو کر عدالت کو اسحٰق ڈار اور ان کی اہلیہ کی جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کردیں تھی۔

18 جنوری 2018 کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں قومی احتساب بیور (نیب) کو ملزم کے اعتراضات پر جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دی تھی۔

11 جنوری 2018 کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت میں اپنے فلاحی ادارے ہجویری ٹرسٹ کا بینک اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

20 دسمبر 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت روکنے کا حکم دیا تھا۔

18 دسمبر کو استغاثہ کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے جس میں ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے اسحٰق ڈار کی بطور اسمبلی رکن ملازمت جبکہ گواہ قمرالزماں نے ان کی تنخواہ، لوکل ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

14 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے جبکہ عدالت نے مزید 5 گواہان کو طلب کیا تھا اور اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسحٰق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے اور ان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

11 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے یا تین روز میں 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔

24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ `[**کیس کی سماعت**][21]` کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں