اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کی سماعت کے دوران ہجویری ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کے منجمند اکاؤنٹس جزوی طور پر بحال کرنے کی ہدایت کردی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کی درخواست پر ہجویری ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس جزوی طور پر بحال کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ رقم صرف ویلفیئر کے منصوبوں پر خرچ کی جاسکتی ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل احتساب عدالت نے ہجویری ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس بحال کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ فیصلہ 31 جنوری کو سنایا جائے گا، تاہم اس معاملے پر عبوری فیصلہ سنا دیا گیا۔

احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت سے قبل نیب نے اسحٰق ڈار کی جائیداد منجمد کئے جانے کے حوالے سے جواب جمع کرایا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیب کے جواب پر بحث بھی آئندہ سماعت پر ہوگی۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت کی نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف جواب جمع کرانے کی آخری مہلت

اس موقع پر نیب کے پراسیکیوٹر عمران شفیق نے عدالت کو بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہجویری ٹرسٹ میں یتیم بچے رہتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فلاحی ادارے کا غلط استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہجویری ٹرسٹ کے اکاؤنٹ سے ہونے والی بہت سی ٹرانزکشنز مشکوک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ بچوں کی کفالت رک جائے اور اس طرح بھی اکاؤنٹس بحال نہیں کئے جاسکتے کہ سارا پیسہ منتقل کرلیا جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ بتا دیں کے بچوں کے اخراجات کتنے ہیں اور اس حساب سے ان کو پیسے نکلوانے کی اجازت دے دی جائے۔

اس موقع پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ کبھی کم پیسے لگتے ہیں کبھی زیادہ، ہم کوئی قدغن نہیں لگا سکتے اور دیکھنا ہو گا کیا طریقہ کار طے کیا جائے۔

اس موقع پر اسحٰق ڈار کے وکیل قاضی مصباح الحسن نے کہا کہ ٹرسٹ کی تین سال کی آڈٹ رپورٹ پیش کردی ہے، اس کے مطابق عدالت فیصلہ کردے اور ساتھ ہی زور دیا کہ یہ ممکن نہیں کہ ٹرسٹ کا پیسہ غلط استعمال ہو۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا ٹرسٹ کے حوالے سے کوئی کیس بھی نہیں ہے جبکہ صرف یتیم بچوں کی کفالت کا معاملہ نہیں، فاؤنڈیشن کے ذریعے اور بھی فلاحی کام کئے جاتے ہیں۔

قاضی مصباح الحسن نے مزید کہا کہ ہجویری فاؤنڈیشن مستحق بچیوں کی شادیوں کے لیے بھی مالی امداد کرتا ہے اور غریب طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی مدد کی جاتی ہے۔

گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت میں اپنے فلاحی ادارے ہجویری ٹرسٹ کا بینک اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

اپنی پٹیشن میں اسحٰق ڈار نے نشاندہی کی کہ ہجویری ٹرسٹ 93 یتیموں کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور اس کے اکاؤنٹ کے منجمد کیے جانے سے ان کی تعلیم اور دیگر بنیاد ضروریات سمیت روز مرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔

پٹیشن میں بتایا گیا کہ بینک اکاؤنٹ کو چند ماہ قبل منجمد کیا گیا تھا اور اس وقت سے اب تک یتیم خانے کو اس کی رسائی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یتیم خانے کی چیئرپرسن شاہدہ نعیم کو ان کے اخراجات خود اٹھانے پڑ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

18 جنوری 2018 کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں قومی احتساب بیور (نیب) کو ملزم کے اعتراضات پر جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دی تھی۔

11 جنوری 2018 کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت میں اپنے فلاحی ادارے ہجویری ٹرسٹ کا بینک اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

20 دسمبر 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت روکنے کا حکم دیا تھا۔

18 دسمبر کو استغاثہ کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے جس میں ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے اسحٰق ڈار کی بطور اسمبلی رکن ملازمت جبکہ گواہ قمرالزماں نے ان کی تنخواہ، لوکل ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

14 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے جبکہ عدالت نے مزید 5 گواہان کو طلب کیا تھا اور اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسحٰق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے اور ان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

11 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے یا تین روز میں 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔

24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کی جانب سے ہجویری ٹرسٹ کا اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں