اسلام آباد: سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) حکام نے حکومت کی جانب سے ایئرپورٹ اور سی اے اے کے بعض شعبوں کو آؤٹ سورس یا نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے سے متعلق اقدام کے خلاف دائر درخواست میں سپریم کورٹ کو نوٹس لینے کی استدعا کردی۔

عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں سی اے اے ایمپلائز یونین کے جنرل سیکریٹری محمد ایاز بٹ نے الزام لگایا کہ حکومت نے سیکریٹری دفاع اور پاک فضائیہ کے خوف سے ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ یا نجکاری سے متعلق تفصیلات پیش نہیں کیں۔

یہ پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری 15 اپریل سے قبل مکمل ہوگی، وفاقی وزیر نجکاری

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ایئرپورٹ کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے سے سیکیورٹی رسک کا خدشہ بڑھ جائے گا جس کے سب سے زیادہ متاثرین میں پاک فضائیہ اور وزارت دفاع ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ کو موصول مراسلے میں بتایا گیا کہ وزارت دفاع کے بھرپور احتجاج کے پیش نظر ایئرپورٹ کی نجکاری کا عمل تعطل کا شکار ہے لیکن وزارت میں معمولی تبدیلی کے بعد مفاد پرستوں کا ٹولہ خاموشی سے ایئرپورٹ اور سی اے اے کے بعض شعبے نجی کمپنیوں کو سپرد کردیں گے۔

درخواست میں تحریر کیا گیا کہ سی اے اے 1982 میں موجود میں آیا اور پاکستان ایئرلائن، ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) اور شعبہ میٹرولوجیکل وزارت دفاع کے زیر انتطام تھے تاہم موجودہ حکومت نے رولز آف بزنس 2013 کا نوٹیفکیشن جاری کرکے ایک علیحدہ ایویشن ڈویژون بنایا اور ایسے کابینہ کے ماتحت کردیا جس کے بعد سی اے اے، اے ایف ایس، پی آئی اے اور میڑولوجیکل شعبہ ڈویژون کے زیر انتظام آگیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے پاس پی آئی اے کی نجکاری کا مینڈیٹ نہیں، عمران خان

مراسلے میں کہا گیا کہ سی اے اے ماضی میں امیر ترین شعبوں میں شمار ہوتا تھا اور گزشتہ سال 70 ارب روپے کما کر قومی خزانے کو فائدہ پہنچایا اور اسلام آباد پر نئے ایئرپورٹ کی تعمیر کے بعد سالانہ 100 ارب روپے کمائے جانے کا امکان ہے۔

ایملائز یونین کا موقف ہے کہ ایئرپورٹ کی نجکاری سے سیکیورٹی خدشات غیر معمولی بڑھ جائیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی جانب سے نجکاری کے بجائے آؤٹ سورسنگ کی اصطلاح استعمال کرکے بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر پٹیشن میں بتایا گیا کہ حکومت نے تمام امور کو اپنے ملازمین سے خفیہ رکھا اور لاہور میں قائم لیگل فرم جو مختلف قانونی مسائل کی نگرانی کرتا ہے، ایسے 4 کروڑ 99 لاکھ روپے کے ٹھیکے سے نواز دیا گیا تاکہ مزاحمت کو دبایا جا سکے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ متعلقہ لیگل فرم کو خلاف ضابطہ ٹھیکے تفویض کیے گئے جبکہ سی اے اے نے 14 کروڑ روپے ادا کیے جس میں اتھارٹی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری کا منصوبہ منظور

مراسلے میں سی اے اے کے حوالے سے بتایا گیا کہ اتھارٹی، شفاف انداز میں انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے سیکیورٹی اینڈ ایکچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹر ہے تا کہ کرپشن کے امکانات کم سے کم ہوں تاہم حکومت نے کمپنی کے تین دائریکٹرز کو خلاف ضابطہ تعینات کیا جن کے کمپنی میں 33 سے 34 فیصد شیئرز ہیں۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا کہ حکومت کی جانب سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے باضابطہ اجلاس کو بلائے بغیر اٹھارٹی کے چیف ایگزیکٹو افسر کی تقریری کی گئی اور تین ڈائریکٹرز کو کاروباری دکھایا گیا جبکہ وہ تمام افسران سی اے اے کی سابق افسران ہیں۔


یہ خبر 10 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں