عراق میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے، انسانی حقوق مشن

بغداد: امریکا کے انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عراق میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
مشن کے سربراہ فرانسسکو موتا نے اے ایف پی کو بتایا کہ عراق اس وقت واقعی دوراہے پر کھڑا ہے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت خانہ جنگی کی صورتحال ہے لیکن حالات اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری سیاسی تعطل، متعدد رہنماؤں میں قومی بصیرت کی کمی، خطے سے ہونے والی بیرونی مداخلت، شام اور دیگر فریقین کے کھیل کے باعث ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔
اے ایف پی کے اعداوشمار کے مطابق رواں ماہ کے آغاز سے شروع ہونے والی حملوں کی لہر میں اب تک 190 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
موتا نے کہا کہ ملک میں جاری فرقہ ورانہ اختلافات اس حد تک شدت اختیار کر چکے ہیں کہ مجھے صورتحال 2007 سے زیادہ گمبھیر دکھائی دے رہی ہے جہاں لوگ بدلے کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور حتیٰ کہ حکومت بھی لاشوں کو گننے سے گریز کرتی ہے۔
عراق میں 2011 میں ہلاکتیں کم ترین سطح پر آ گئی تھیں جہاں اقوام متحدہ کے مطابق سال بھر میں 2 ہزار 771 لوگ ہلاک ہوئے تھے تاہم حال ہی میں پرتشدد وقعات اور دھماکے ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے ہیں جہاں ملک میں رہنے والے سنی مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر شیعہ حکومت کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جتنی زیادہ ہلاکتیں ہوں گی، اتنے ہی بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آئے گا اور صورتحال اسی حساب سے قابو سے باہر ہو جائے گی۔
موتا نے کہا کہ اگر ہلاکتیں اسی رفتار سے ہوتی رہیں تو سال کے اختتام تک یہ 5 ہزار سے زائد کا ہندسہ عبور کر جائیں گی جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں ایک بار پھر 2008 والی صورتحال کا سامنا ہے۔
امریکی انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے کہا کہ ابھی بھی صورتحال اس مقام تک نہیں پہنچی جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو اور نہ ہی ہم ابھی خانہ جنگی جیسی صورتحال کے قریب پہنچے ہیں۔
لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پرتشدد واقعات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور معصوم لوگوں، خواتین، بچوں اور مردوں کو مارنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تو شاید ہم اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ممکن نہ ہو اور کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہو۔