آج سے 2 ماہ پہلے، دن میں 8 سے 10 کپ چائے پینا میرا معمول تھا۔ دن میں کچھ مخصوص اوقات جیسے صبح ناشتے میں، دوپہر کھانے کے بعد، شام آفس سے گھر واپسی پر اور پھر رات کے کھانے کے بعد چائے نہ ملتی تو سر بھاری رہتا اور کسی کام میں دل نہ لگتا تھا۔ مزید یہ کہ دوستوں کی محفل میں جاؤ تو چائے ملتی، کسی کے گھر مہمان بنو تو چائے، کوئی مہمان گھر آئے تو اس کی تواضع میں چائے پیش کی جاتی، مختصر یہ کہ مجھے چائے کی لت لگ چکی تھی!

یہ تو سب جانتے ہیں کہ جسم میں چینی کی زیادتی کس قدر مہلک ہے اور جب چائے بننے کے مرحلے میں چینی پکتی ہے تو اس کا نقصان اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ قبل اس سے کہ یہ عادت میری صحت کو مزید متاثر کرتی میں نے فیصلہ کیا کہ اس عادت سے چھٹکارا پانا چائیے۔

اس کوشش کے دوران 4 عوامل نے اس مقصد کو پانے میں اہم کردار ادا کیا۔

  • سب سے پہلے یہ کہ اس کوشش کی ابتداء میں نے بتدریج کمی کے ذریعے نہیں کی، بلکہ سیدھا 10 کپ سے صفر کپ پر آگیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، یہ صفر کا ہندسہ جوں کا توں موجود ہے۔
  • دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے ذہن کو چائے کے خیال سے دور رکھنے کے لیے اس کا متبادل استعمال کیا، یعنی چائے کے بجائے ان اوقات میں پانی، دودھ یا پھر فریش جوس کو اپنے معمولات میں شامل کیا۔
  • تیسرا یہ کہ میرے اطراف میں موجود لوگوں نے اس عادت کو چھڑوانے میں میرا بہت ساتھ دیا۔ میرے گھر والوں نے چائے کے بجائے ان اوقات میں مجھے مختلف قسم کے جوس اور شیک بنا کر دیے اور
  • چوتھی اور سب سے اہم بات یہ کہ میں نے اپنے اس پلان کے بارے میں کسی سوشل میڈیا پر اعلان نہیں کیا بلکہ اس کو صرف خود تک اور اپنے گھر والوں تک محدود رکھا۔ آج اس بائیکاٹ کو 2 ماہ ہوچکے ہیں میں نے چائے کا ایک کپ بھی نہیں پیا!

مزید پڑھیے: کامیاب زندگی گزارنے کے لیے پُراعتماد ہونا لازمی ہے

روز مرہ زندگی میں بہت سی ایسی عادتیں ہوتی ہیں جنہیں ہم چھوڑنا چاہتے ہیں یا کچھ ایسی اچھی عادات ہوتی ہیں جنہیں ہم اپنانا چاہتے ہیں، مگر عادتیں چھوڑنا یا اپنانا اتنا آسان کام نہیں ہوتا، کیونکہ کئی مرتبہ ہم کچھ ایسا کررہے ہوتے ہیں جو ہماری ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ درج ذیل اپنے تجربے کی بناء پر میں کچھ ایسے ہی طریقے بتا رہا ہوں جنہوں نے مجھے میری بعض عادتوں خصوصاً چائے کی عادت کو چھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس کام کو مکمل ختم کریں

عام طور پر لوگ کسی بھی عادت کو چھوڑنے کے لیے اس کو بتدریج ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عادت کو آہستہ آہستہ کرکے کم کریں گے، جیسے اگر کوئی دن میں 20 سگریٹ پیتا ہے اور اپنی اس عادت کو چھوڑنا چاہتا ہے تو پہلے وہ 15 پر آئے گا، پھر 10 اور 5 کے بعد ختم کردے گا۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہ خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔

اگر آپ کسی بھی عادت کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو آپ کو کرنی چائیے وہ یہ کہ اس کام کو مکمل زیرو کردیں۔ جب آپ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں گے تو اُس چیز کی آپ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلب خود بہ خود کم ہوتی چلی جائے گی۔ جیسے جب تک سگریٹ کا پیکٹ آپ کے پاس ہوگا تو آپ کو اس کی طلب ہوگی اور یوں اس عادت کا چھوڑنا مشکل ہوجائے گا۔ جیسے چائے کی عادت چھوڑنے کے لیے مجھے اس کو مکمل اپنی زندگی سے نکالنا پڑا ورنہ میں یہ نہ کرپاتا۔ ایسے ہی کسی عادت کو بنانے کے لیے مسلسل اس کام کو ایک شیڈول کے مطابق پابندی سے کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں ہم نیچے تفصیل سے بتائیں گے۔

متبادل ڈھونڈیں

جب آپ ایک ایسی چیز کو اپنی زندگی سے ختم کریں گے جو دراصل آپ کی زندگی کا ایک اہم جز بن گئی ہو تو یقیناً اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے آپ کو کوئی ایسی چیز یا کوئی ایسی مثبت سرگرمی اپنانی پڑے گی جس کو اپنا کر آپ اپنے اندر کی اس بے چینی کو کم یا ختم کرسکیں۔

مزید پڑھیے: منفی خیالات کو چھوڑ کر پُراعتماد شخصیت کے مالک کیسے بنیں؟

جیسے اگر آپ نے سگریٹ یا چائے کا مکمل بائیکاٹ کیا ہے تو اس کی جگہ کوئی متبادل لائیں جیسے پھلوں کا استعمال، جوس یا کسی ٹافی کا استعمال، جیسے کچھ لوگ چینی کا استعمال ترک کرتے ہیں تو چینی کے متبادل گڑ یا پھر مصنوعی مٹھاس کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ میں نے چائے کا متبادل فریش جوس تلاش کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس متبادل کو بھی اپنائیں بس اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ ایک مثبت چیز یا سرگرمی ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے۔

آپ کا ماحول سازگار ہو

آپ کے اطراف میں جو لوگ موجود ہوں، اگر ان میں سے کوئی ساتھ دینے والا ہو تو آپ کو کسی بھی عادت کو چھوڑنے یا کسی بھی عادت کو اپنانے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان جب بھی ایکسرسائز (ورزش) کا پلان بناتے ہیں تو اپنا ساتھی ضرور تلاش کرتے ہیں تاکہ ایک دوست دوسرے کی ہمت نہ ٹوٹنے دے، اور وہ کام مستقل مزاجی کے ساتھ ہوتا رہے۔

مغربی ممالک میں ایک نئی اصطلاح شروع ہوئی ہے جس کو ’کپل گولز‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی دو ساتھی، پھر چاہے وہ میاں بیوی ہوں یا دوست، وہ مل کر کسی بھی عادت، مقصد یا مشن کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یقین کریں اگر آپ کے دوست احباب اس مقصد میں زبانی ہی آپ کی حمایت کردیں تو آپ کے لیے یہ کافی ہے۔ لیکن اگر ان کا رویہ منفی ہو اور وہ آپ کے مشن کا مذاق اڑائیں یا اس کو ناقابلِ عمل کہیں تو یقیناً آپ کی موٹیویشن کم ہوجائے گی اور پھر آپ کو اس عادت سے چھٹکارا پانے یا عادت بنانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن چونکہ خوش قسمتی سے میرا ماحول سازگار تھا لہٰذا جب میں نے اپنا پلان گھر والوں کو بتایا تو انہوں نے بخوشی میرا ساتھ دیا یوں میرے لیے کام آسان ہوگیا۔

ٹارگٹ ایک ماہ

کسی بھی عادت کو اپنانے کے لیے اپنا ٹارگٹ یہ بنائیں کہ کم از کم ایک ماہ مسلسل بغیر کسی ناغے کہ مجھے اس مقصد یا اس کام پر عمل کرنا ہے، ایک اسٹڈی سے یہ ثابت ہے کہ کسی بھی عادت کو اپنانے یا چھوڑنے کے لیے کم از کم 21 دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔

خاموشی آپکی دوست ہے

اگر آپ کسی بھی عادت کو چھوڑنا یا اپنانا چاہ رہے ہیں تو اس بارے میں اعلان نہ کریں. امریکی اسپیکر ڈیریک سیورز نے اپنی ایک ٹیڈ ٹاک میں مختلف تحقیقوں کے حوالے سے اس بات کو ثابت کیا ہے اگر ہم کسی بھی کام کو کرنے سے قبل اس کے بارے میں پلاننگ کا کسی سے ذکر کردیں تو ہمارے ذہن کو یہ سگنل ملتا ہے کہ جیسے وہ کام ہوچکا ہے اور پھر ہمارا دماغ اس کام کو کرنے کے لیے اپنے اندر وہ تحرک نہیں رکھتا جو کسی بھی کام کو کرنے کے لیے چائیے ہوتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنی پلاننگ اپنے تک ہی محدود رکھیں یا پھر محض ان تک جن کو آپ اس مشن میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں یا جن کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔

امید ہے کہ ان باتوں پر عمل کرکے اور مستقل مزاجی سے آپ کسی بھی عادت کو مکمل طور پر چھوڑنے یا کسی بھی کام کی عادت بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

سارہ Jun 07, 2018 06:45pm
سوشل میڈیا خاص کر فیس بک اور آن لائن اخبارات کو بارے بارے دیکھنے کی لت کو ختم کرنے کے لئے بھی کچھ تحریر کریں۔
سید اویس مختار Jun 09, 2018 10:10am
@سارہ مثبت اور جسمانی بھاگ دوڑ پر مبنی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، انشاءاللہ میرا اگلا بلاگ اس ہی حوالے سے ہوگا کہ موبائل فون جو کہ موجودہ دور میں سب سے بڑی توجہ بٹانے والی چیز بنتا جا رہا ہے اس کا حل کیسے نکالا جائے۔