کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کے کیس میں پروسیکیوشن کے وکیل نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انکشاف کیا ہے کہ استغاثہ کے گواہان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

خیال رہے کہ معطل پولیس آفیسر سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار اور زیر حراست ان کے 11 ماتحت پولیس اہلکاروں جبکہ دیگر 15 اشتہاری پولیس افسران پر نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے، نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں قتل کیا گیا تھا۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس سے متعلق سماعت کے دوران مدعی کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے کیس کے مرکزی ملزم ایس ایس پی ملیر اور دیگر ملزمان کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دینے کی کوشش کی اور عدالت کو بتایا کہ گواہان کو دھمکیاں موصول رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل: ’بادی النظر میں پولیس مقابلہ منصوبے کے تحت کیا گیا‘

دوسری جانب مدعی مقدمہ کے وکلا کے اعتراض کے باوجود ایک مرتبہ پھر کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو ہتھکڑی کے بغير اور پروٹوکول کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی عدالت ميں پيش کیا گیا۔

دوران سماعت مدعی کے وکیل صلاح الدين نے عدالت کو بتايا کہ استغاثہ کے گواہان کو دھمکايا جارہا ہے، ايسی صورتحال ميں انصاف کیسے ہوگا، جس کے بعد جج نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت مؤخر کردی۔

علاوہ ازیں ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کے خلاف اور ملزم کو بی کلاس دینے کی درخواستوں پر فیصلہ مؤخر کردیا۔

بعد ازاں عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت 9 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کی جیل کو بی کلاس کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

پیشی کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مدعی کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ عدالت گواہان کے تحفظ کو يقينی بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی عدالت ميں کيس کے تفتيشی افسر پيش نہيں ہوئے جبکہ عدالت کو بتايا گيا کہ شہر کے سيکيورٹی معاملات ديکھنے کی ذمہ داری ان کے حوالے ہے، جس کے باعث وہ پيش نہيں ہو سکتے۔

یاد رہے کہ 28 مئی 2018 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم ایس ایس پی راؤ انوار کو سب جیل منتقل کرنے کے خلاف اور ملزم کی جانب سے جیل میں بی کلاس کی فراہمی سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد گرفتار

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں