انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ آئے دن نت نئی باتیں سوچتا رہتا ہے اور یقیناً یہ سوچنا کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ اسی وجہ سے آج ہم علم کی دنیا میں ترقی دیکھتے ہیں، اکثر تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی فلسفی نے کوئی انوکھی بات کہی اور اس کو سننے کے بعد سائنسدان اس پر سوچنے لگ گئے اور نتیجے میں بڑی تحقیق سامنے آئی۔

اسی طرح بہت سے لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا جو ہم قدرت کے رنگوں کو دیکھتے ہیں یہی حقیقت ہے یا پھر ہماری آنکھوں نے ہمیں دھوکے میں رکھا ہوا ہے؟ کیا آسمان کا رنگ واقعی نیلا ہے یا اس کے پیچھے کوئی دوسرا راز چھپا ہے؟

یہ سوالات ایسے ہیں جو انسان کو واقعی سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں، لیکن اس بات کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم اس سوال کا جواب نہ ہی کبھی دے پائے ہیں اور نہ ہی کبھی دے سکتے ہیں! جی ہاں، ہم اس بات کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے کہ اس کائنات میں موجود تمام اشیاء حقیقی ہیں یا مصنوعی، یہ اس لیے کیوں کہ ہمارے پاس ان تمام اشیاء کے حالات و واقعات کو ناپنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور حیران کن بات یہ کہ اس کے علاوہ ہم کوئی طریقہ تجویز کرنے بیٹھیں تو وہ بھی اسی سے مطابقت رکھتا ہوگا یعنی کوئی نیا طریقہ نہیں بن سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: شہر اور دیہات کے آسمان میں فرق کیوں ہوتا ہے؟

آج ہمیں اگر کسی چیز کا وزن معلوم کرنا ہو تو اس کے لیے ہمارے پاس ترازو موجود ہے، اسی طرح درجہ حرارت کو ناپنے کے لیے تھرمامیٹر، کرنٹ کو ناپنے کے لیے گلوانومیٹر (ایسا میٹر جس کو سرکٹ میں نصب کرکے اس (سرکٹ) میں موجود کرنٹ معلوم کیا جاسکتا ہے)، وقت کو ناپنے کے لیے گھڑی، فاصلے کو ناپنے کے لیے انچ ٹیپ موجود ہے، یہ تمام چیزیں 1960ء میں ہونے والی جنرل کانفرنس آف ویٹ اینڈ مئیرز میں رکھی گئیں جن میں فاصلے کے لیے ’میٹر‘، وقت کے لیے ’سیکنڈ‘، کرنٹ کے لیے ’امپیر‘، وزن کے لیے ’کلوگرام‘، درجہ حرارت کے لیے ’کیلون‘ اور اسی طرح باقی اعداد کے لیے مختلف یونٹس کا تعین کیا گیا۔ یعنی یہ تمام قوانین بنائے اور آج ہم اگر کائنات کی کسی بھی شے کی جانچ کرنا چاہیں تو انہی یونٹس میں نتیجہ نکالتے ہیں کیوں کہ اس کے علاوہ ہم نے کوئی قانون نہیں بنایا اور نہ ہی بنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ شاید اس سے زیادہ باریک اور دیگر چیزیں بنانا فی الحال انسان کے بس کی بات نہیں۔

—فوٹو: کروی ٹیوب
—فوٹو: کروی ٹیوب

گرمیوں کی راتوں میں کھلے آسمان تلے کھڑے ہوکر اکثر بچے اپنے بڑوں سے سوال کرتے ہیں کہ یہ آسمان سیاہ یا بہت تیز نیلا کیوں ہے؟ یہ انتہائی اعلیٰ سوال ہے اور یہی نہیں بلکہ اس کے جواب کے بعد دوسرے سوالات بھی جنم لیتے ہیں، جس کا جواب کچھ یوں ہے کہ اگر ہم آسمان کو شہر کی تیز روشنیوں سے دور جاکر دیکھیں تو یہ سیاہ یا نیلا نظر نہیں آئے گا بلکہ ان گنت ستارے دکھائی دیں گے، لیکن پھر بھی آسمان ان ستاروں کے باوجود اتنا سیاہ اس لیے ہے کیوں کہ یہ ستارے ہم سے کھربوں کلومیٹر دور ہیں جن میں سے سب سے قریب ترین ستارہ ہم سے 36 کھرب کلومیٹر یعنی 4 نوری سال دور ہے، جس کی وجہ سے ان ستاروں کی روشنی بہت ہی مدھم ہوتی ہے. تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آسمان کا سیاہ رنگ روشنی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن کیا ہر سیاہ چیز کا رنگ اسی وجہ سے سیاہ ہوتا ہے؟ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے!

مزید پڑھیں: کیا آپ کو پتہ ہے، زمینی فضاء دراصل دھوکہ ہے!؟

اس بات کو سمجھنے کے بعد اگر کوئی سوچے کہ شاید کوئلے کا سیاہ رنگ بھی روشنی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے، تو یہ بالکل غلط ہوگا کیوں کہ کوئلے کو سورج کی روشنی میں بھی دیکھیں تو وہ سیاہ رنگ کا ہی رہے گا۔ ہر غیر روشن چیز (ایسی چیز جو خود روشنی خارج نہ کرے) کا جو رنگ ہمیں دکھائی دیتا ہے دراصل وہ اس سے منعکس شدہ رنگ ہوتا ہے.

—فوٹو: پیٹا پکسل
—فوٹو: پیٹا پکسل

اب اگر کوئی شے تمام رنگوں کو منعکس کردے تو ہمیں وہ شے سفید رنگ کی دکھائی دے گی اور اسی طرح اگر کوئی شے تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کرلے تو وہ شے ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن پودوں کے پتے ہمیں سبز رنگ کے دکھائی دیتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہے کہ پتے میں موجود کیمیائی مادے تمام رنگوں کو جذب کرلیتے ہیں اور صرف سبز رنگ کو منعکس کردیتے ہیں، بہت سے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب ہوتا کیسے ہے؟

یہ بھی پڑھیں: فرض کریں، اگر سورج نہ رہے تو کیا ہوگا؟

تو یہ سب اس طرح ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کائنات میں ہر شے چھوٹے ایٹموں سے مل کر بنی ہے، لہٰذا یہ ایٹم جب خود کو اسٹیبل کرتے ہیں تو کچھ انرجی خارج یا جذب کرتے ہیں اور اگر وہ انرجی روشنی کی شکل میں ہوگی تو وہ کوئی رنگ ظاہر کردے گی۔

اسی وجہ سے ہمیں دن میں آسمان کا رنگ نیلا نظر آتا ہے اور سورج کے غروب یا طلوع کے وقت یہ رنگ لال ہوجاتا ہے. یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جیسے ہی سورج کی روشنی فضاء میں موجود اوزون کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو یہ مالیکیول اس روشنی کو تمام اطراف میں منعکس کرتے ہیں اور ہر رنگ ایک مخصوص زاویے پر منعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا جب سورج عین سر پر ہوتا ہے تو آسمان نیلے رنگ کا دکھائی دیتا ہے لیکن جیسے ہی سورج کی افق سے اونچائی کم ہوتی ہے، ویسے ویسے یہ رنگ تبدیل ہوکر لال رنگ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کی روشنی کا رنگ لال ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ شام اور صبح کے وقت یہی روشنی فضاء کے زیادہ حصے سے سفر کرکے آتی ہے جس کی وجہ سے فضاء میں موجود مختلف ذرات سے ٹکرا کر روشنی کی ویو لینتھ (لہر کا حجم) بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے لال رنگ دکھائی دیتا ہے۔

بہرحال یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ اس کائنات میں روشنی وہ واحد چیز ہے جو اس سیارے پر زندگی کی شروعات ہونے سے بھی پہلے سے موجود ہے لیکن آج تک اس کے بہت سے راز ایسے ہیں جن کو انسان سمجھنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔ 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ali imran Jun 20, 2018 07:30pm
Nice article, Really appreciated