سوات کا پہلا خواتین جرگہ
اخون بابا: پچھلے سال جب سولہ سالہ طاہرہ تیزاب سے جلائے جانے کے نتیجے میں ہلاک ہوئی تو اس کے غریب والدین کو کوئی انصاف نہیں مل سکاتھا۔
سرکاری حکام نے ان پر اپنے دروازے بند کر لیے جبکہ پولیس نے انہیں سننے سے ہی انکار کر دیا۔
اس قتل کا مرکزی ملزم جو لڑکی کا ظالم شوہر بھی تھا اس دوران آزاد گھومتا رہا۔
لیکن پھر یہ معاملہ پاکستان کے سب سے پہلے خواتین جرگے نے اُٹھایا۔
یہ جرگہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ختم کرنے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
پاکستان کی شمال مغربی وادی سوات کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے کافی خراب شہرت حاصل ہوچکی ہے۔
پچھلے سال اسی مقام پر طالبان نے ایک اسکول کی طالبہ ملالئے یوسف زئی کے سر میں گولی ماری تھی۔
دو ہزار سات سے دوہزارنو کے درمیان اس علاقے پر طالبان کا کنٹرول رہا۔ اس دوران لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا گیا، ان کے کلاس رومز کو نذر آتش کیا گیا جبکہ خواتین کے اکیلے باہر نکلنے پر بھی پابندی تھی۔
پھر 2009ء میں حکومت نے سوات میں اپنا کنٹرول قائم کیا۔
لیکن پاکستان کے دوسرے شمال مغربی حصوں کی طرح یہاں بھی خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور انہیں اپنی ہر ضرورت کے پورا ہونے کے لیے مردوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
طاہرہ کی والدہ جان بانو جب بھی اس کی قبر پر فاتحہ کے لیے پہاڑی کے اوپر جاتی اور نیچے آتی ہیں تو انہیں انتہائی کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
بانو ہائی بلڈ پریشر اور ذیابطیس کی مریض ہیں، اوپر سے انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ نے ان کی صحت مزید خراب کر دی ہے۔
طاہرہ کی شادی بارہ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں آج بھی غریب گھرانوں میں کم عمر لڑکیوں کی جلدی شادی کا رواج باقی ہے۔
بانو کہتی ہیں کہ جب طاہرہ کے شوہر صبح خان نے ان کی بیٹی پر تشدد شروع کیا تو انہیں فکر لاحق ہوئی۔
بانو کے مطابق، صبح خان نے ہی ان کی بیٹی پر تیزاب ڈالا اور پھر مرنے کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیا۔
طاہرہ کا چہرہ اور جسم کا اوپری حصہ تیزاب سے بری طرح متاثر ہوا تھا، اور وہ اسی حالت میں چودہ دن تک چیخنے چلانے کے بعد دم توڑ گئی۔
بانو کہتی ہیں کہ جب وہ پولیس کے پاس گئیں تو انہوں نے بات سننے سے ہی انکار کر دیا۔
بانو کے بڑے بیٹے نے جب اعلیٰ سرکاری حکام سے رابطہ کیا تو صبح خان اور ان کے والد نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
پھر بانو کوعلاقے کے عمائدین پر مشتمل ایک جرگے کی جانب سے پیغام ملا کہ اس قتل کے بدلے کے طور پر صبح کی بہن کو طاہرہ کے بھائی سے شادی میں دیا جا سکتا ہے۔
بانو نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ خواتین رضاکاروں کے ایک گروپ نے سوات کے مرکزی شہر سیدو شریف میں صرف خواتین ارکان پر مشتمل ایک جرگہ بنایا گیا ہے۔
اس پچیس رکنی جرگے کی سربراہ تبسم عدنان کہتی ہیں کہ ”ہم مردوں کے جرگوں سے تنگ آ چکے ہیں، کیونکہ یہ صرف مردوں کے حق میں فیصلے کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کے ازالے کے طور پرخواتین کو قربان کیا جاتا ہے۔“
پینتیس سالہ تبسم نے جرگے کے دفتر میں عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں مزید کہا: ہم خواتین کو ان جرگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
تبسم نے طاہرہ کا معاملہ اٹھایا اور قتل کے مرکزی ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔
ان کی کوششوں سے پولیس نے صبح کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، لیکن ملزم اس کے بعد سے مفرور ہے۔
تبسم نے بانو کو ایک وکیل کی خدمات بھی فراہم کی ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کا مقدمہ لڑ سکیں۔
خواتین کے حقوق کی لڑائی
پاکستان میں بالعموم عدالتوں سے ملنے والے انصاف پرعدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مقدموں میں انصاف ملتے ملتے سالوں لگ جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طالبان شدت پسند عدالتوں میں بدعنوانی اور سُست روی کی وجہ سے دلیر ہو چکے ہیں۔
ایسی صورتحال میں قبائلی جرگے ایک متبادل کے طور پر سامنے آتے ہیں، تاہم یہ جرگے خواتین کے حقوق کو یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا پھر ان سے امتیازی رویہ برتا جاتا ہے۔
عام طور پر جرم کا ارتکاب کرنے والے مردوں کی خواتین کو بدلے کے طور پر متاثرہ فریق کو شادی کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔
برقع میں ملبوس تبسم نے بتایا کہ انہوں نے خواتین کو انصاف کی یقین دہانی کے لیے پہلے پہل سوات کے مرکزی ”قومی امن جرگے“ کو ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
اس لیے ہم نے اپنا ایک جرگہ بنا لیا اور اب ہم خواتین سے متعلق معاملات کے فیصلے کرتے ہیں۔
ہمارا مقصد صرف خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے ہم پولیس اور سرکاری حکام کی مدد لیتے ہیں۔
تبسم نے بتایا کہ وہ خود اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی ہیں کیونکہ ان کی بیس سالہ گھریلو زندگی سخت مشکل میں گزری۔
انہوں نے بتایا کہ جرگہ کا نام ”دخونیندو ٹولینہ“ ہے جس کا اردو میں مطلب ”بہنوں کا گروپ“ ہے۔
”خواتین کی جانب سے موصول ہونے والے انتہائی مثبت ردعمل نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ہم ان کے حقوق کے لیے ایک علیحدہ جرگہ تشکیل دیں۔“
تبسم کے مطابق ان کا جرگہ اب تک گیارہ خواتین کو انصاف کی فراہمی میں مدد دے چکا ہے، لیکن اس سب کے باجود مردوں کے جرگے نے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
سوات قومی امن جرگہ کے ترجمان احمد شاہ نے خواتین کی جانب سے رابطہ کرنے کی تصدیق کی، لیکن ان کے بقول پشتون معاشرے میں اس پیشکش کو قبول کیا جانا ناممکن تھا۔
اے ایف پی سے نجی گفتگو میں جرگے کے کئی ارکان نے خواتین کی کوششوں کو مضحکہ خیز قرار دے کر انہیں مسترد کر دیا۔