پروین رحمٰن قتل کیس: ’پولیس کی بدنیتی نے کیس خراب کر دیا‘

19 دسمبر 2018
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمٰن کو 2013 میں قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمٰن کو 2013 میں قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو

سماجی رہنما پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے قاتلوں کی عدم گرفتاری کو المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی بدنیتی نے کیس خراب کر دیا۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وکیل راحیل کامران نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کو کارکن پروین رحمٰن کے قتل کی تحقیقات کے لیے ازسر نو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کے لیے درخواست دے رکھی ہے، جس سے متعلق ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو نئی جے آ ئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست دی گئی تھی، جس پر وزارت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رائے طلب کی ہے۔

مزید پڑھیں: 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سپریم کورٹ برہم

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کہیں نہیں لکھا کہ جے آئی ٹی دوبارہ نہیں بن سکتی۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ایک کیس میں دوبارہ جے آئی ٹی بنائی گئی، ماڈل ٹاؤن کیس میں تو پنجاب حکومت نے خود دوبارہ جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اچھا کام کرنے والی خاتون کا قتل ہوا، ان کے قاتلوں کی گرفتاری نہ ہونا ایک المیہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی بدنیتی کی وجہ سے سارا کیس خراب ہوا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ معاملے کو دبایا گیا اور شواہد بھی ضائع کیے گئے تھے۔

انہوں نے عدالت کو واضح کیا کہ جے آئی ٹی کی ازسر نو تشکیل کا جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: ’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

خیال رہے کہ اکتوبر میں کی گئی سماعت میں سپریم کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں ٹرائل کے احکامات کے باوجود پیش رفت نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ہم سب سمجھ رہے ہیں کہ سندھ پولیس اور پروسیکیوشن کیا کر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ پانچ سال سے جاری اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

سماعت میں وقفے سے قبل انہوں نے استفسار کیا تھا کہ کیوں نہ جے آئی ٹی بنا کر اس کیس کی تحقیقات کروالی جائیں۔

سماعت میں وقفے کے بعد سندھ حکومت کے وکیل نے بتایا تھا کہ مذکورہ کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی ٹرائل کا حکم دیا گیا تھا۔

کیس کا پس منظر

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمٰن 13 مارچ 2013 کو اپنے آفس سے گھر جارہی تھیں کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے منگھوپیر روڈ پر بنارس پل کے پاس ان پر فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر گولیاں لگی تھیں۔

پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا، تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہو سکی تھیں۔

بعد ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اس قتل کے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

رواں برس کے آغاز میں سپریم کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جس کے بعد 22 مارچ کو سندھ پولیس پر مشتمل جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ پروین رحمٰن کے قتل کی سازش میں لینڈ مافیا ملوث تھی، کیونکہ وہ گوٹھ آباد اسکیم پر کام کر رہی تھیں۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل ویسٹ زون عامر فاروقی نے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پروین رحمٰن کے قتل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سنیئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

واضح رہے کہ پروین رحمٰن کے قتل کے اگلے ہی روز 14 مارچ 2013 کو قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعد ازاں 29 مارچ کو 2013 انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس میں نامزد پانچ ملزمان ایاز شمزیی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف پپو کشمیری، محمد عمران سواتی اور محمدرحیم سواتی پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

کیس میں نامزد ملزمان نے اقرارِ جرم نہیں کیا تھا اور اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کا اختیار چُنا، جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے پروسیکیوشن گواہان کو بیانات قلمبند کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کو 31 اپریل تک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت

تاہم 28 جون کو یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کیس میں ٹرائل کا آغاز نہیں ہوسکا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پولیس، گواہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’مذکورہ کیس میں تقریباً 23 پروسیکیوشن گواہان موجود ہیں لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ان میں سے کوئی بھی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے رضامندی ظاہر نہیں کررہا۔‘

تبصرے (0) بند ہیں