’سانحہ ساہیوال جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے'

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2019
آئی جی پنجاب کے مطابق مکمل تفتیش کے لیے کم از کم 30 دن چاہئیں — فائل فوٹو
آئی جی پنجاب کے مطابق مکمل تفتیش کے لیے کم از کم 30 دن چاہئیں — فائل فوٹو

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال کی عدالتی تحقیقات کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پنجاب میں اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے اور ساتھ ہی انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی کو تمام ڈی پی اوز کو اس حوالے سے ہدایات دینے کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم نے سانحہ ساہیوال کے معاملہ پر جوڈیشل انکوائری کروانے کی ایڈووکیٹ آصف کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر عدالتی حکم پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ابھی تک کیا تفتیش ہوئی ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ مکمل گواہوں کے بیان ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال پر آئی جی پنجاب کو طلب کرلیا

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ 'آئی جی صاحب یہ بڑے ظلم کی بات ہے، مجھے بتائیں کہ پولیس کو کیسے اختیار ہے کہ وہ سیدھی گولیاں چلائے'۔

جس پر آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کرلیا ہے اور معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی بنا دی گئی ہے، اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسران کو معطل بھی کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس سے استفسار کیا کہ انکوائری کتنے دن میں مکمل ہوگی، وقت بتائیں، جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ مکمل تفتیش کے لیے کم از کم 30 دن چاہیے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ پورے پنجاب میں اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، تمام ڈی پی اوز کو آگاہ کر دیں۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل کمیشن بنانا صوبائی حکومت کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت کا ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی کا جائے وقوع کا دورہ، ملوث اہلکاروں کی شناخت

بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ اہم ہے اور انہوں نے اس کیس کی سماعت کے لیے 2 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔

علاوہ ازیں عدالت عالیہ نے آئندہ سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ 22 جنوری کو لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال پر عدالتی تحقیقات کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب امجد جاوید سلیمی کو طلب کیا تھا۔

سانحہ ساہیوال

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’جے آئی ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا‘

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:'فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصور وار غلط اطلاع دینے والے ہیں'

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا، ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں