اساتذہ نے سندھ بھر میں تدریسی عمل کا بائیکاٹ کردیا

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2019
اساتذہ نے اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے— فوٹو: اے پی پی
اساتذہ نے اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے— فوٹو: اے پی پی

کراچی میں احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس کے تشدد اور مطالبات کی حمایت میں اساتذہ نے سندھ بھر میں تدریسی عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔

گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے بابر تقریباً 2 ہزار احتجاجی اساتذہ جمع ہوئے تھے اور گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن (گسٹا) کے عہدیداران نے مطالبات تسلیم کیے جانے کے حق میں تقریریں کیں جس کے بعد اساتذہ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ شروع کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس کا لاٹھی چارج، واٹر کینن کا استعمال

پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان معمولی جھڑپ بھی ہوئی اور متعدد اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا جنہیں رات گئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ہدایت پر رہا کردیا گیا تھا۔

کراچی میں پولیس کی جانب سے پرامن مظاہرہ کرنے والے اساتذہ پر پولیس تشدد اور مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کے خلاف گسٹا کی اپیل پر سکھر سمیت سندھ بھر میں اساتذہ نے آج سے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کردیا ہے اور اسکولوں میں کلاس رومز کو تالے لگا دیے ہیں۔

بائیکاٹ کے سبب جمعہ کو سندھ کے اکثر سرکاری اسکولوں میں طلبا کی تعلیم متاثر رہی جبکہ اساتذہ کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

گسٹا رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ نہ صرف تدریسی عمل کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے بلکہ یکم اپریل سے سندھ کے تعلیمی بورڈز کے زیر انتظام ہونے والے نویں اور دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات کا بھی بائیکاٹ کردیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ریاضی میں ’فیل‘

واضح رہے کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ کی جانب سے کل 8مطالبات کیے گئے ہیں جن میں این ٹی ایس اساتذہ کو مستقل کرنے، مینجمنٹ کیڈر کے سبب اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی ختم کرنے، ایس ایل ٹی، ایچ ایس ٹی اور جے ایس ٹی اساتذہ کا فی الفور پروموشن، کے ایس ٹی اور مساوی گریڈ کے اساتذہ کو 17 اور ایچ ایس ٹی اور مساوی گریڈ کے اساتذہ کو 20ویں گریڈ کے معاہدے کے تحت ٹائم اسکیل شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ 2012 میں بھرتی کیے گئے اساتذہ کی تنخواہ فی الفور جاری کرنے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریٹائرمنٹ پر گروپ ایشورنس دینے، بھرتیوں کے لیے پرانا طریقہ اختیار کرنے اور سندھ کے اساتذہ سمیت تمام سرکاری ملازمین کو گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سندھ اسمبلی اور سندھ ہائی کورٹ کے ملازمین کے مساوی تنخواہیں دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر شیلنگ بھی کی گئی— فوٹو: اے پی پی
پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر شیلنگ بھی کی گئی— فوٹو: اے پی پی

اساتذہ کی جانب سے میٹرک امتحانات کے بائیکاٹ کی دھمکی سے ایک مرتبہ پھر امتحانات ملتوی ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا لیکن صوبائی وزیر تعلیم نے اس دھمکی کو مسترد کردیا۔

میٹرک امتحانات وقت پر ہوں گے، صوبائی وزیر تعلیم

صوبائی وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ نے بات چیت کے لیے اساتذہ کے وفد کو طلب کیا ہے اور کچھ دیر بعد مذاکرات ہوں گے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اور میٹرک امتحانات مقررہ وقت پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اساتذہ نے امتحانات کا بائیکاٹ کیا تو وہ خود نگراں امتحانات بن جائیں گے اور ان کے ساتھ سیکریٹری تعلیم بھی امتحانات کی ویجیلنس کریں گے۔

مزید پڑھیں: صوبے کے ایک لاکھ 35ہزار اساتذہ ریاضی، سائنس نہیں پڑھا سکتے،وزیر تعلیم

ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو پرائیوٹ سیکٹر سے نگراں امتحانات منتخب کریں گے اور میڈیا سے بھی گزارش کی کہ وہ امتحانات میں آکر ویجیلینس ڈیوٹی انجام دیں۔

واضح رہے کہ میٹرک کے امتحانات اس سے قبل بھی دو بار التوا کا شکار ہوچکے ہیں، پہلی بار ہندوؤں کے تہوار ہولی کی وجہ سے تاریخ 20 سے بڑھا کر 25 مارچ کی گئی۔

بعدازاں تعلیمی بورڈ کے ملازمین کے احتجاج کے باعث اسے یکم اپریل کردیا گیا لیکن اب اساتذہ کے احتجاج کے باعث ایک بار پھر امتحانات کا انعقاد خطرے میں نظر آ رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں