بورس جانسن وزیراعظم بنے تو مستعفی ہوجاؤں گا، برطانوی وزیر انصاف

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2019
یورپی یونین نے بریگزٹ کے لیے 31 اکتوبر تک کی مہلت دی ہے — فائل فوٹو/ اے پی
یورپی یونین نے بریگزٹ کے لیے 31 اکتوبر تک کی مہلت دی ہے — فائل فوٹو/ اے پی

برطانیہ کے سیکریٹری اسٹیٹ برائے انصاف ڈیوڈ گواک کا کہنا ہے کہ اگر اگلے وزیراعظم نے کسی معاہدے کے بغیر بریگزٹ کا انتخاب کیا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادار ے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ گواک کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ برطانیہ کو معاہدے کے ساتھ یورپی یونین سے علیحدہ ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے امیدوار بورس جانسن نے کہا تھا کہ برطانیہ کسی معاہدے کے ساتھ یا بغیر معاہدے کے 31 اکتوبر کو یورپی یونین چھوڑ دے گا۔

ان کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب کنزرویٹو پارٹی رکن پارلیمنٹ سیم گئیما نےکہا تھا کہ 30 سے زائد پارلیمانی ارکان معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ یورپی یونین نے برطانیہ کو یونین سے علیحدہ ہونے کے لیے 31 اکتوبر تک مہلت دے رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کی دوڑ میں بورس جانسن دوسرے مرحلے میں بھی آگے

ڈیوڈ گواک نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ 31 اکتوبر تک کے عرصے میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ سے بچنے کا طریقہ ڈھونڈ لے گی۔

اگر بورس جانسن وزیراعظم بنتے ہیں تو کابینہ سے نکالے جانے کے خدشے کے جواب میں ڈیوڈ گواک نے کہا کہ ’مجھے شبہ ہے کہ میں اس سے پہلے ہی جاچکا ہوں گا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بورس جانسن وزیراعظم بنے تو وہ کابینہ کے ہر رکن سے چاہیں گے کہ وہ 31 اکتوبر کو معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے لیے تیار رہے، میں اس پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتا لہٰذا میں پہلے ہی استعفیٰ دے دوں گا۔

کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے سابق امیدوار سیم گئیما نے تھریسامے کے بریگزٹ معاہدے کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا اور اب ان کا کہنا ہے کہ 30 اراکین پارلیمنٹ معاہدے کے بغیر بریگزٹ روکنے کے لیے قانونی آپشنز پر غور کررہے ہیں۔

انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ ’میں ان کے کامیاب ہونے سے قبل ان کے ناموں کا اعلان نہیں کرنا چاہتا‘۔

سیم گئیما نے کہا کہ یہ حقیقت میں تشویش کی بات ہے اور تشویش اس لیے ہے کہ یہ سب ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹنگ کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں بورس جانسن نے دیگر امیدواروں پر واضح برتری حاصل کی تھی اور انہوں نے پہلے مرحلے میں 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے وزیر اعظم کی دوڑ، پہلے مرحلے میں بورس جانسن کامیاب

بورس جانسن نے تھریسامے کے بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی۔

برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے۔

آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور ساتھ ہی تھریسا مے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں ملک کا نیا وزیر اعظم بنے گا۔

یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

تھریسا مے استعفے کے باوجود نئے سربراہ کے انتخاب تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گی جو جولائی کے اواخر میں منتخب ہوں گے لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں