سپریم کورٹ: قتل کے الزام میں عمر قید کاٹنے والے 7 ملزمان شک کی بنیاد پر بری

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2019
ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: ٹوئٹر
ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی— فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قتل کے الزام میں گرفتار 7 ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کردیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے بذریعہ ویڈیو لنک متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔

اس موقع پر ڈکیتی اور اس دوران محمد اشرف نامی شخص کے قتل کے مقدمات کا معاملہ زیرغور آیا، جس میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس اور مدعی پارٹی نے مل کر کہانی ترتیب دی۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ مقتول کا پوسٹ مارٹم 14 گھنٹے کی تاخیر سے کیا گیا جبکہ گواہان کو بعد میں خود سے بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: اہلیہ سمیت 4 افراد کے قتل کا الزام، سزائے موت کا مجرم بری

چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عام طور پر ڈکیتی کے مقدمات میں علاقے کی پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ واردات کس نے کی ’لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان پہلے کسی قسم کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے'۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 2 واقعات ہوئے جن میں ایک ڈکیتی جبکہ دوسرا قتل کا ہے، ملزمان ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے جائے وقوع پر پہنچے لیکن سائیڈ پلان میں اس کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

عدالتی ریمارکس پر ملزمان کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کا مدعی کے ساتھ کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: 52 مرتبہ سزائے موت پانے والا شخص بری

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مدعی کے بھائی کا قتل ہوگیا، اسے معلوم نہیں کہ ایف آئی آر درج کروانی ہے۔

انہوں نے واقعے سے متعلق ریماکس دیے کہ عجیب بات ہے کہ ملزمان ڈکیتی کے دوران شناختی کارڈ اور بجلی کا بل بھی اپنے ساتھ لے گئے، آج کل تو مہنگائی کی وجہ سے مالک کو بجلی کا بل بھرتے ہوئے مشکل ہوتی ہے اور ڈاکو بل بھرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کردیا۔

خیال رہے کہ مذکورہ واقعہ 2004 میں قصور میں پیش آیا تھا، تاہم ٹرائل کورٹ نے ساتوں ملزمان امجد علی، محمد خالد ظفر اقبال، عبد القیوم، منظور احمد، محمد طارق اور محمد اکرم عرف ڈاکو کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی، جبکہ ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل کردی تھی۔

سزائے موت کے منتظر مجرم کی سزا عمر قید میں تبدیل

دوسری جانب ایک علیحدہ سماعت کے دوران مجرم سیف اللہ کی سزائے موت کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردیا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

زمین کے تنازع پر 2 بھائیوں اور بھابی کے قتل سے متعلق اس کیس کی سماعت کے دوران مقتولین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ زمین کے تنازع پر ضلع بھکر میں پیش آیا۔

اس دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں فریقین کے درمیان صلح ہوئی تھی، اس صلح نامے میں کون کون شامل تھا، جس پر ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نسیم بی بی انتقال کرگئیں تھیں جبکہ ان کے ورثا نے ملزمان کو معاف کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے 5 برسوں میں 78 فیصد مقدمات میں سزائے موت ختم کی، رپورٹ

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارتی قانون میں ترمیم کرکے ورثا کے ورثا کی صلح کو قابل قبول بنایا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو تجویز دی ہے کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پاکستانی قانون کے مطابق ورثا کے وارث صلح نہیں کر سکتے، جس پر مقتولین کے وکیل نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجرم سیف اللہ اور اس کے بهائیوں کے درمیان زمین کی تقسیم کا تنازع تها۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجرم سیف اللہ نے جھگڑے کے دوران پہلے ایک بھائی پر فائر کیا، دوسرا شخص بھاگا تو اس پر بھی پیچھے جاکر فائرنگ کردی اور مجموعی طور پر تین افراد اس واقعے میں قتل ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: دہشتگردی کے مجرم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس جھگڑے کے دوران مجرم کے بھائی کی اہلیہ نسیم بی بی بهی زخمی ہوگئیں تھیں جو ایک ماہ بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئیں تھیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر زخمی متاثرہ شخص کیس کی پیروی کے لیے پیش نہ ہو تو سزا نہیں ہوسکتی۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مجرم سیف اللہ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔

خیال رہے کہ 2 بھائیوں کے قتل کے مجرم سیف اللہ کو ٹرائل کوٹ نے سزائے موت سنائی تھی، تاہم جب اپیل لاہور ہائی کورٹ میں گئی تھی تو وہاں سزا معطلی کی درخواست مسترد ہوگئی تھی اور یہی سزا برقرار رہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں