سانحہ بلدیہ فیکٹری: انسداد دہشتگردی عدالت نے آخری گواہ کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2019
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر کو گواہی کے لیے 28 اکتوبر کو طلب کیا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر کو گواہی کے لیے 28 اکتوبر کو طلب کیا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں استغاثہ (پروسیکیوشن) کے آخری گواہ کو 28 اکتوبر کو طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں جوڈیشل کمپلیکس میں ٹرائل کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 7 کے جج نے سانحہ بلدیہ کیس میں پروسیکیوشن کے آخری گواہ انسپکٹر راجا جہانگیر کو طلب کیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر کو گواہی کے لیے 28 اکتوبر کو طلب کیا ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینے کا کہا گیا، مالک

سماعت کے دوران زیرحراست عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ ضمانت پر موجود ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی اور دیگر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

خصوصی پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے کہا کہ موجودہ کیس میں انسپکٹر جہانگیر چوتھے تفتیشی افسر ہیں جنہوں نے 3 چارج شیٹس جمع کروائیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک شخص کی گواہی باقی رہتی ہے لہٰذا کیس آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں پروسیکیوٹنگ ایجنسی پیراملٹری رینجرز نے ابتدائی طور پر چارچ شیٹ میں 786 گواہان کا نام فہرست میں شامل کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 6 سال گزر گئے، کیس تاحال التوا کا شکار

بعدازاں 368 کو غیر ضروری ہونے کی وجہ سے فہرست سے خارج کردیا تھا جبکہ عدالت اب تک 399 گواہان کے بیانات کا جائزہ لے چکی ہے۔

تیسری چارج شیٹ میں تفتیشی افسر نے فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھیلا، ان کے بیٹوں ارشد اور شاہد، منیجر محمد منصور، گیٹ کیپرز فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمود، ایک اور ملازم شاہ رخ، حیدرآباد میں مقیم کاروباری بھائیوں علی حسن قادری اور عمر حسن قاردی سمیت زبیر عرف چریا، ڈاکٹر عبدالستار اور اقبال ادیب خانم کو الزامات سے بری کردیا تھا۔

تاہم عدالت نے طویل تاخیرکے بعد تمام 13 ملزمان کو بیانات ریکارڈ کرنے اور باضابطہ ٹرائل کے لیے طلب کیا تھا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری

خیال رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

سانحے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی، جس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں فروری 2015 میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں ایم کیو ایم کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا گیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت 11 ملزمان کو فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیہ فیکٹری مقدمے میں 2 گواہوں کا ملزم کے خلاف حلفیہ بیان

پروسیکیوشن کے مطابق مشتبہ ملزمان نے اس وقت کے ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایات پر عمل کیا کیونکہ فیکٹری کے مالکان نے بھتے کی رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔

ابتدائی طور پر ثبوتوں کی عدم موجودگی پر پولیس نے زبیر چریا کو رہا کردیا تھا البتہ عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے قلمبند کرائے گئے بیان میں انہوں نے زبیر کو بھی شریک جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فیکٹری کو آگ لگانے کا کام انجام دیا جس کے بعد پولیس نے زبیر کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

علاوہ ازیں رواں سال اپریل میں کیس کی سماعت کے دوران ایک اہم ترین گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوا اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کو شناخت کرلیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں