نیب تحقیقات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکرم درانی کی عبوری ضمانت منظور کرلی

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
درخواست گزار رہبر کمیٹی میں انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں —تصویر: فیس بک
درخواست گزار رہبر کمیٹی میں انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں —تصویر: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی کی 4 نومبر تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل بینچ نے رہنما جے یو آئی (ف) کی درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر اکرم درانی اپنے وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سابق وفاقی وزیر اکرم درانی نے نیب کی جانب سے مختلف تحقیقات شروع کیے جانے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف پارٹی کے ’آزادی مارچ‘ میں اہم کردار ادا کرنے پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اپنی درخواست میں اکرم درانی کا کہنا تھا کہ انہیں فریقین (نیب چیئرمین، ڈپٹی ڈائریکٹر اور تفتیشی افسر ندیم فراز) کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے حالانکہ وہ تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے جے یو آئی (ف) کے رہنما کے خلاف گھیرا تنگ کردیا

تاہم جس رفتار سے تینوں تحقیقات جاری ہیں اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں آزادی مارچ سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔

چنانچہ جے یو آئی (ف) کے رہنما کی درخواست پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرلیا۔

بعدازاں عدالت نے نیب کی تینوں تحقیقات میں سابق وفاقی وزیر کی 4 نومبر تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔

مذاکرات کیلئے رابطہ ہم نے نہیں حکومت نے کیا، اکرم درانی

سماعت کے موقع پر اکرم درانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رہبر کمیٹی کے بغیر کوئی لیڈرشپ حکومت سے نہیں ملے گی اگر حکومت نے اگر ملنا ہے تو کنونئیر اکرم خان درانی سے رابطہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملاقات کے لیے حکومت رابطہ کررہی ہے ہیں ہم نہیں کررہے، دھرنا ہو گا اور وزیراعظم کو جانا ہوگا، ہم ان سے استعفٰی لے کر جائیں گے۔

اکرم درانی نے کہا کہ اسد قیصر اور پرویز خٹک کا فون آیا تھا رابطہ میں نے نہیں کیا وہ کررہے ہیں کیوں کہ رابطہ ضرورت مند کرتا ہے اور ہمیں ابھی ضرورت نہیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے پہلے حکومت اعلان کرے کہ دھرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور پورے پاکستان سے اسلام آباد پہنچنے تک کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں کوئی دھرنا نہیں ہوگا، اپوزیشن

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے یہ اعلان کرے پھراس کے بعد ہم اس سے رابطہ کریں گے۔

اکرم درانی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی پرویز الہی سے نہیں ملیں گے اور رہبر کمیٹی کے 11 ممبران کے علاوہ کوئی بھی حکومت سے مذاکرات نہیں کرے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سول مارشل لگا ہوا ہے، میرے جیتنے دوست ہیں ان سب کو نیب نے طلب کررکھا ہے۔

واضح رہے کہ اکرم درانی کو وفاقی حکومت ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی 2 ہاؤسنگ اسکیم میں مبینہ بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ ان پر منظورِ نظر افسران کی تعیناتی، مسجد کے لیے ’خلافِ ضابطہ‘ پلاٹس مختص کرنا اور پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کا کام شامل ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق' جے یو آئی (ف) سے ہے اور وہ حکومت کے خلاف 27 اکتوبر سے آزادی مارچ کی سربراہی کررہی ہے‘ جبکہ اس احتجاج کی تیاروں اور تعاون کے سلسلسے میں ایک رہبر کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سے مذاکرات پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ’درخواست گزار رہبر کمیٹی میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اس کمیٹی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کی نمائندگی بھی کرتے ہیں لہٰذا ان تحقیقات کے پیچھے حکومت ہے جو ان کی سیاسی سرگرمیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہے'۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ ’1999 میں نیب کی تشکیل کے بعد سے یہ ادارہ پولیٹکل انجینئرنگ کے آلہ کار اور مخالف آوازوں کو خاموش کروانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ نیب کو آزادی مارچ کے منتظمین کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے اکرم درانی کو 10 اکتوبر کو حفاظتی ضمانت دی تھی اور نیب اس کی مدت ختم ہوتے ساتھ ہی انہیں گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

اکرم درانی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں