العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی سزا 8 ہفتوں کیلئے معطل

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت مںظور کی تھی —فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت مںظور کی تھی —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا۔

واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر نواز شریف کی منگل تک طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی تھی۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید بامشقت اور ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد سے وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں آج (بروز منگل) جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی اور درخواست ضمانت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: 'حکومت کیسے بتا سکتی تھی نواز شریف کی صحت ٹھیک رہے گی یا نہیں؟'

عدالت کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو طلب کرنے پر وہ عدالت میں پیش ہوئے اور اس موقع پر نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان، قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما بھی عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا، جسے کچھ وقفے کے بعد سنایا گیا اور عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ مزید ضمانت کے لیے آئندہ پنجاب حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پیشی

قبل ازیں آج سماعت کے آغاز پر جسٹس عامر فاروق نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ سب سے بڑے آبادی والے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، بہت سے قیدی جیلوں میں بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ درخواست گزار بھی بہت سی بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، نواز شریف تو عدالت میں آگئے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو جیلوں میں بیماری سے لڑرہے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاس آگاہی مہم نہیں ہے اور لوگ وکیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جیلوں میں جو لوگ بیمار ہیں ان کی فہرست تیار کریں اور سیکشن 440 کے تحت انہیں خود بھی چھوڑا جاسکتا ہے، اس پر عثمان بزدار نے کہا کہ تھوڑی سی گزارش کرنا چاہوں گا، میں خود بھی وکیل ہوں، میں جہاں بھی جاتا ہوں جیل کا دورہ کرتا ہوں، اب تک 8 جیلوں کا دورہ کر چکا ہوں، 6 سو قیدیوں کو رہا کردیا، پیرول ایکٹ بھی کابینہ کے سامنے ہے، جس پر کام جاری ہے۔

عثمان بزدار نے بتایا کہ اپنے اختیارات کا بھی استعمال کر رہے ہیں جبکہ جیل اصلاحات بھی لارہے ہیں، جیلوں کو ٹھیک کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں نواز شریف کو بہتر طبی سہولیات دی جارہی ہیں، نواز شریف کا معاملہ نیب کا تھا مگر ہم نے پھر بھی خیال رکھا اور انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو کینسر نہیں، ان کا مرض قابل علاج ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی

اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ کوئی وزیراعلیٰ جیلوں کا دورہ کر رہا ہے، 72 برسوں میں کسی وزیراعلیٰ نے جیل کا دورہ نہیں کیا، میرٹ اور قانون کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے، ہم ایک پیکج لارہے ہیں، جو بہت جلد لوگوں کو نظر آئے گا، اس پر عدالت نے ان کی بات مکمل ہونے پر کہا کہ آپ جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹروں کا بیان

سماعت کے دوران میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پڑھنا شروع کی، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ڈاکٹرز آسان الفاظ میں عدالت کو بیماری سے آگاہ کریں۔

ڈاکٹروں نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو دل سمیت بہت سی بیماریاں لاحق ہیں، اگر ہم پلیٹلیٹس بناتے ہیں تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں، 80 انجیکشن لگا دیے گئے ہیں اور اب ان کے پلیٹلیٹس نہیں گررہے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ عام آدمی میں کتنے پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں، جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک لاکھ تک پلیٹلیٹس ہونے چاہئیں۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کو طبی علاج کے دوران ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے؟ جس پر ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ جی دوران علاج ہی ان کو دل کا دورہ پڑا، جس پر جج نے پوچھا کہ کیا وہ ہسپتال میں رہے بغیر بہتر ہو سکتے ہیں، اس پر جواب دیا گیا کہ نہیں ان کو لمحہ بہ لمحہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔

نواز شریف کے ذاتی معالج کا موقف

اس دوران جج کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ نواز شریف کا ذاتی معالج کون ہے، جس پر ڈاکٹر عدنان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ نواز شریف کو زندگی بچانے والی ادویات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی سے ڈاکٹر شمسی کو علاج کے لیے بلایا گیا ہے لیکن ابھی تک ہمیں یہ ہی نہیں معلوم ہو رہا ہے کہ نوازشریف کے پلیٹلیٹس کیوں گر رہے ہیں، نواز شریف کی عمر 70 سال ہے اور ان کو عارضہ قلب بھی لاحق ہے، وہ آج تک غیر مستحکم ہیں، میں نے آج تک کبھی ان کی اتنی تشویشناک حالت نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کل رات کھانے کے بعد بلڈ پریشر بھی شوٹ کر گیا تھا، وہ اپنی زندگی سے جنگ لڑرہے ہیں۔

سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل

بعد ازاں جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز تشریف رکھیں، اب وکلا سے قانونی پہلو سن لیتے ہیں۔

اس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور بتایا کہ رپورٹ جو جمع کرائی گئی وہ 25 اکتوبر کی ہے۔

مزید پڑھیں: مرض کی تشخیص کے بعد نواز شریف کو پی کے ایل آئی لے جانے کا فیصلہ

وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نوازشریف کو اسیٹرائیڈ بھی دی جا رہی ہے، نوازشریف کے پلیٹلیٹس بڑھانے کے لیے دوا دی گئی، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ فالج سے بچاؤ کے لیے پلیٹلیٹس بڑھانا ضروری ہے، پلیٹلیٹس فوری بڑھائیں تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، میاں صاحب کو کچھ دن پہلے بھی اسی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا، پلیٹلیٹس اس وقت بھی مصنوعی طریقے سے بڑھائے گئے ہیں، قدرتی طور پر ان کے پلیٹلیٹس بڑھ نہیں رہے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ ابھی تک کے علاج سے آپ مطمئن ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ابھی تک ہم میڈیکل بورڈ کے علاج سے مطمئن نہیں ہیں، میڈیکل بورڈ خود اپنی رپورٹ میں کہہ رہا ہے کہ ہم سے انتظام نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ سروسز ہسپتال میں ٹیسٹ کی مشینیں ہی نہیں ہیں، نواز شریف کے علاج و ٹیسٹ کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا ہے، لگتا ہے ایک اسٹیج ایسی آئے گی جب ڈاکٹرز کہے گیں کہ جہاں سے چاہیں علاج کروا لیں۔

خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ نواز شریف کو 7 سال کی سزا ہوئی اگر وہ نہیں رہے تو سزا کا کیا بنے گا، میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں کہا گیا دل کا دورہ پڑا اور گردوں پر بھی اثر پڑا، گولیاں اور انجیکشن نواز شریف کو دینے کی نصیحت کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو جو ادویات دی جارہی تھیں ان میں سے بعض ادویات دیگر بیماریوں کے باعث روکنا پڑیں۔

اس موقع پر خواجہ حارث نے میڈیکل رپورٹس پیش کیں اور بتایا کہ نواز شریف کے انجائنا کی وجہ سے تمام بیماریوں کا علاج بیک وقت ممکن نہیں، 26 اکتوبر کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا دل مکمل طور پر خون پمپ نہیں کررہا تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کو ایک چھت کے نیچے تمام طبی سہولیات ملنا ضروری ہیں، ہمیں ڈاکٹرز کی نیت و قابلیت پر شبہ نہیں مگر نتائج سے بورڈ خود مطمئن نہیں، اگر نوازشریف کی سزا پرعملدرآمد کرانا ہے تو اس کے لیے ان کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے موقف اختیار کیا کہ نوازشریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرانے کی اجازت ملنی چاہیے، ضمانت منسوخی کی درخواست نیب کیوں نہیں دیتا؟ نوازشریف کی حالت بہتر ہوگئی تو وہ دوبارہ قید کی سزا کاٹ سکتے ہیں۔

اس دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 401 میں انتظامیہ (ایگزیکٹو) نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے لیکن ایگزیکٹو اپنا کام ہی نہیں کررہا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کی نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت

انہوں نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ سیکشن 426 کے بعد سیکشن 401 کی ضرورت کیوں پیش آئی، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سیکشن 426 میرٹ اور میڈیکل کو بیان کرتا ہے جبکہ سیکشن 401 ایگزیکٹو ریلیف دے سکتا ہے اور طبی بنیادوں پر نواز شریف کی حالت بہتر نہیں، ڈاکٹرز بھی طبی امداد بہتر انداز میں دے رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 5 دن مانگنے کے باوجود نواز شریف کی حالت بہتر نہیں ہوئی، جب بیماری ہی سمجھ نہیں آرہی تو ڈاکٹرز کیسے علاج کریں گے۔

نیب پراسیکیوٹر کے دلائل

نواز شریف کے وکیل کے دلائل کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آئے اور نیب کا موقف بیان کرنا شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا علاج یہاں نہیں ہوسکتا، ڈاکٹروں نے نصیحت کی کہ نوازشریف کا علاج بیرون ملک سے کرائیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹروں نے یہ نہیں کہا کہ علاج بیرون ملک سے کرائیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے علاج کے لیے 6 ہفتوں کے لیے سزا معطل کی تھی، تاہم عدالت عظمیٰ نے سزا معطلی کے وقت کچھ پیرامیٹرز طے کیے تھے، عدالت نے واضح کیا تھا کہ نواز شریف ان 6 ہفتوں کے دوران ملک سے باہر نہیں جاسکتے، ان 6 ہفتوں میں پاکستان میں اپنی مرضی کا علاج کرانے کا کہا گیا تھا۔

نیب پراسیکوٹر کے موقف پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ اسلام آباد میں سزا پانے والے قیدی جیل جائیں تو ان کی کسٹڈی کو کون ریگولیٹ کرے گا؟ اڈیالہ جیل بھی پنجاب میں ہے جبکہ کوٹ لکھپت جیل بھی اسی صوبے میں آتی ہے، سیکشن 401 کے تحت اگر ریلیف دینا ہو تو کون دے گا۔

انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کے ملزم اگر سزا کاٹ رہا ہے تو وہ الگ معاملہ ہے، تاہم آپ سیکشن 401 کا بتائیں؟ ریلیف صوبائی حکومت دے گی یا وفاقی؟ اگر لاہور میں سزا ہوتی ہے تو پنجاب حکومت ریلیف دے گی لیکن اگر اسلام آباد میں نیب عدالت سزا دیتی ہے تو سیکشن 401 پر کون ریلیف دے گا؟

اسی دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آج تک کسی نے سوچا نہیں کہ اسلام آباد میں جیل بنائیں، جلدی جلدی جیلیں بنائیں تاکہ وہ آباد ہوں۔

اس موقع پر عدالت نے معاونت کے لیے ایڈووکیٹ جنرل طارق جہانگیری کو بلایا، جس پر وہ پیش ہوئے اور بتایا کہ اسلام آباد میں کوئی جیل اور جیل مینوئل نہیں، اسلام آباد میں بھی جو سزا پاتا ہے اس کو پنجاب حکومت ہی ریلیف دیتی ہے، وفاقی دارالحکومت کے قیدیوں کو چیف کمشنر ہی ریلیف دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹرز نے نواز شریف کے خون کی ٹیسٹ رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دے دیں

ایڈووکیٹ جنرل کے جواب پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ یہ بتادیں کہ نواز شریف جیل میں بیمار ہوئے تو کیا چیف کمشنر نے انہیں ہسپتال بھیجا؟ پھر تو چیف کمشنر کو بھی فریق بنانا چاہیے تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی آفیسر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتا، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اڈیالہ سے لاہور کوٹ لکھپت جیل گئے تھے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تو اڈیالہ جیل کیا پنجاب میں نہیں ہے۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی ضمانت پر مخالفت سے انکار کردیا اور کہا کہ میں میرٹ پر نہیں جاؤں گا، نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر ہم ضمانت دے دیں تو کتنے وقت کے لیے دیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ نواز شریف کو 6 ہفتوں کی ضمانت ملی تھی۔

نیب کا انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت سے انکار

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے، عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دیں، اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کا جائزہ لیا جائے۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپیل جب سے زیرسماعت ہے، اگر دلائل ہوتے تو اب تک اپیل پر بھی فیصلہ ہوجاتا، ابھی تک جج ویڈیو اسکینڈل والے معاملے پر بھی سماعت مکمل نہیں ہوسکی، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم آپ کو الزام نہیں دے رہے۔

عدالتی ریمارکس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو انتظامیہ کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتی، اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہو تو عدالتی کارروائی کو ایگزیکٹو آرڈر سے فرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا۔

اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے علاوہ سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل بھی اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔

وکیل کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے صدر مملکت سزا معاف کرسکتے ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں لیکن روایت یہ ہے کہ پہلے تمام فورمز پر اپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کے سوا ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے موقف میں واضح ہی نہیں، وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکیں کہ انہوں نے اس معاملے پر کیا موقف اختیار کرنا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی طبیعت ناساز، نیب دفتر سے سروسز ہسپتال منتقل

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کس شرط پر آپ کو ضمانت دی جائے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ آپ وہ شرط رکھیں جس میں نوازشریف کی طبعیت بہتر ہو سکے، نواز شریف وفاقی و صوبائی حکومت کے پاس نہیں جائیں گے، اسی لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے، اب ڈاکٹروں کو بھی نہیں معلوم ان کی بیماری کا حل کتنی دیر میں ہوگا۔

خواجہ حارث کی بات پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹرز بھی صرف اپنی کوشش ہی کرتے ہیں۔

عدالت کے سامنے 4 آپشنز

ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4 آپشنز ہیں، ایک معاملہ ایگزیکٹو کو بھجوائیں، نیب کی تجویز پر ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کریں، آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کردیں۔

اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی حکومت کو یہ معاملہ بھجوانا، جو ہماری شدید مخالف ہے، زیادہ مناسب نہیں ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوز کو بھجوانے کی مخالفت کردی۔

وکیل کی مخالفت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کسی جماعت کے نہیں پورے ملک اور صوبے کے ہوتے ہیں، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3 دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پر یہ بیان دیا؟

عدالت کے استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لا افسر ہیں، سب ٹی وی چینلز نے ان کا بیان نشر کیا، ہم عدالت کے پاس آئے ہیں، آپ قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کر دیں۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گی، پورے پاکستان کا نقطہ نظر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ ہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے ہم نے لعن طعن ہی ہونا ہے، ہم اس کا احترام کریں گے۔

خواجہ حارث کی بات پر جسٹس محسن اختر کیانی نے مشورہ دیا کہ آپ میڈیا پر بیٹھ کر بات کیا کریں، سارے وہ لوگ قانونی نکات بتا رہے ہوتے ہیں جو وکیل نہیں ہوتے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ وقفے کے بعد سنایا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور کرلی

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ 8 ہفتوں میں علاج مکمل نہ ہو تو مزید ضمانت کے لیے پنجاب حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

عدالت کا تحریری فیصلہ

بعد ازاں عدالت کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا گیا۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کی جاتی ہے جس کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو 8 ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا جائے، بیس بیس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرائے جائیں جبکہ 8 ہفتوں کی رہائی کی مدت ضمانتی مچلکے داخل ہونے کے بعد شروع ہو گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت ناساز رہنے کی صورت میں 8 ہفتے کی مدت ختم ہونے سے قبل پنجاب حکومت سے رجوع کیا جائے جبکہ صوبائی حکومت جب تک نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ نہ کرے ان کی ضمانت برقرار رہے گی۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ اگر نواز شریف نے صوبائی حکومت سے رابطہ نہ کیا تو 8 ہفتے کی مدت کے بعد ان کی ضمانت ختم تصور ہو گی۔

ضمانت کی درخواست

یاد رہے کہ شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی اور استدعا کی تھی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

ابتدائی طور پر اس معاملے پر سماعت ہوئی تھی اور 25 اکتوبر کو عدالت نے سماعت میں ریمارکس دیے تھے کہ نواز شریف کی قانونی طور پر ضمانت ممکن نہیں، تاہم طبی بنیادوں پر معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

بعد ازاں اس درخواست پر سماعت منگل 29 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔

تاہم نواز شریف کی خرابی صحت کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے ہفتہ یعنی 26 اکتوبر کو ایک متفرق درخواست کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

وکیل خواجہ حارث کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نواز شریف کی درخواست ضمانت پر فوری سماعت کی جائے، جس کے بعد عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے 26 اکتوبر کو ہی کیس کی سماعت کی تھی۔

تقریباً شام ساڑھے 6 بجے تک جاری رہنے والی اس طویل سماعت میں عدالت نے کئی مرتبہ سماعت کو ملتوی کیا اور وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، نیب کے نمائندوں کو عدالت طلب کرکے جواب مانگا تھا۔

ہفتے کو ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف کو ضمانت نہیں مل سکتی،طبی بنیاد پر معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہائیکورٹ

جس کے بعد عدالت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی درخواست ضمانت کو منگل تک منظور کرتے ہوئے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرے اور پوچھے کہ بیمار قیدیوں سے متعلق صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کیے۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو 15 روز میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کر گئے اور قیدیوں سے متعلق عدالتی حکم پر کیا عمل درآمد ہوا۔

علاوہ ازیں عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو 29 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ عثمان بزدار منگل کو ذاتی حیثیت میں متعلقہ بینچ کے سامنے پیش ہوں۔

نواز شریف کی خرابی صحت

خیال رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: خرابی صحت کے باعث نواز شریف کو کہیں اور منتقل نہیں کیا جاسکا

بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

طبیعت کی ناسازی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 درخواستیں دائر کی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت کی تھی اور اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں