مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کی کوریج پر پابندی غیر قانونی قرار

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
درخواست گزار نے کہا تھا کہ پیمرا نے جے یو آئی سربراہ کی پریس کانفرنس کو نشر نہ کرنے کے لیے چینلز کو زبانی ہدایت جاری کی تھیں —فائل فوٹو: ڈان نیوز
درخواست گزار نے کہا تھا کہ پیمرا نے جے یو آئی سربراہ کی پریس کانفرنس کو نشر نہ کرنے کے لیے چینلز کو زبانی ہدایت جاری کی تھیں —فائل فوٹو: ڈان نیوز

پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان الیکڑانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلز کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس نشر کرنے سے روکنے کے اقدام کو غیر آئینی و قانونی اور پیمرا کے آرڈیننس 2002 کے منافی قرار دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھی اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے ریمارکس دیے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کو نشر کرنے پر پابندی آئین کی شق 19 اور پیمرا آرڈیننس کی شق 27 کے خلاف ہے۔

مزیدپڑھیں: جے یو آئی (ف) کا انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع

جے یو آئی کے رہنما عبید اللہ انور کی جانب سے عدالت میں دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’پیمرا نے مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کو نشر نہ کرنے کے لیے چینلز کو زبانی ہدایت جاری کی تھیں‘۔

اس درخواست پر عدالت نے جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں پیمرا کو ہدایت کی کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ نجی چینلز اپوزیشن کی سرگرمیوں کو بھی اسی طرح نشر کریں، جس طرح وہ حکومت کی کرتے ہیں۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ ’آئین کی شق 19 ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے‘۔

قبل ازیں عدالت نے آزادی مارچ کے سلسلے میں سڑکوں کی بندش سے متعلق عبیداللہ انور اور عظمت علی کی درخواست پر تفصیلی فیصلے میں صوبائی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں کنٹینرز لگا کر روڈ بند کرنے کو بھی غیرقانونی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی عائد

علاوہ ازیں بینچ نے درخواست گزار کو ہدایت دی کہ ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کو بونڈ کے ذریعے یقین دلایا جائے کہ آزادی مارچ کے شرکا پرامن رہیں گے اور عوامی اور حکومت املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 16 ،15 اور 17 کا حوالہ دیا گیا جن میں آزادی سے نقل و حرکت، لوگوں کے پرامن اجتماع اور اتحاد کی تشکیل کی ضمانت دی گئی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنطیم ’انصار الاسلام‘ پر پابندی کے اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ’حکومت جے یو آئی کے مطالبات سے خوفزدہ ہو کر جماعت کے خلاف مہم چلارہی ہے اور مختلف طریقوں سے آواز دبانے اور آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی اسے روکنے کی کوشش کررہی ہے‘۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت محکمہ قومی انسداد دشت گردی کے ذریعے حملوں کے خطرات سے متعلق الرٹ جاری کرکے عوام میں افراتفری پھیلا کر آزادی مارچ میں شرکت سے روکنے کی کوششیں بھی کررہی ہے۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد سے جے یو آئی (ف) کے 2 کارکن گرفتار

یاد رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' کے دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن محافظ دستے سے سلامی لیتے نظر آئے تھے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں