پاک-افغان تعلقات بہتر بنانے کیلئے کابل میں مذاکرات

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2019
افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے افغان دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کی —تصویر: ٹوئٹر
افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے افغان دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کی —تصویر: ٹوئٹر

اسلام آباد: سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے باہمی تعلقات پر افغان حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا اور افغانستان کے قومی سلامتی مشیر حمداللہ محب سے ملاقات کی۔

اس حوالے سے افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کبیر حقمل نے افغان دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کی اور بتایا کہ دونوں فریقین نے تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے بات چیت کی۔

ذرائع کے مطابق بات چیت کے ایجنڈے میں پشاور کی افغان مارکیٹ کا تنازع، سرحد پر فائرنگ کے واقعات اور دونوں جانب سے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے الزامات شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں پاکستانی سفارتی عملہ ہراساں، افغان ناظم الامور دفترخارجہ طلب

واضح رہے کہ افغان حکومت نے گزشتہ ماہ پشاور کی افغان مارکیٹ کی ملکیت کے تنازع پر پولیس چھاپے پر احتجاج کیا تھا جس کے بعد کابل نے پشاور میں قائم اپنا قونصل خانہ بند کردیا تھا۔

اس حوالے سے پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ یہ تنازع ایک شہری اور افغان بینک کے درمیان ہے اور عدالت نے اس دعوے کا فیصلہ 1998 میں شہری کے حق میں سنایا تھا۔

جس کے بعد افغان بینک کی جانب سے تمام تر قانونی راستے استعمال کرلینے کے بعد مقامی انتظامیہ نے عدالتی حکم کے نفاذ کی کارروائی کی تھی۔

اس سلسلے میں کبیر حقمل کا کہنا تھا کہ کابل میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں فریقین نے مارکیٹ کا تنازع حل کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: پشاور: بازار سے پرچم ہٹانے پر افغان قونصل خانہ احتجاجاً بند

اس کے علاوہ گزشتہ دنوں پاک فوج کی جانب سے سرحد پر چوکی کی تعمیر روکنے کے لیے افغانستان نے طاقت کا استعمال کیا تھا جس کے بعد 15روز قبل پاکستان اور افغان فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔

مذکورہ جھڑپ کچھ روز جاری رہی اور اس دوران افغان فوج نے پاکستان کی سرحد کے اندر چترال کے مقام پر شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں متعدد افراد اور فوجی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

بعدازاں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ افغان وزارت خارجہ نے ابتدا میں الزام عائد کیا تھا کہ اسلام آباد میں اس کے سفیر عاطف مشعل کو آئی ایس آئی نے طلب کیا اور ’ادارے کے اہلکاروں کا طرزِ عمل سفارتی اصولوں کے منافی تھا‘۔

اس الزام کے بعد پاکستانی حکومت نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ کابل میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے افسران اور عملے کے’ راستے میں اس وقت رکاوٹ ڈالی گئی اور موٹر سائیکل سواروں نے ٹکر ماری جب وہ سفارتخانے جارہے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ہراساں کے معاملے پر ‘مشاورت’ کے بعد پاکستانی سفارتکار دہلی روانہ

مذکورہ صورتحال میں پاکستانی سفارت خانے کے قونصلر حصے نے اپنی خدمات معطل کردی تھیں جبکہ دفتر خارجہ نے اس بات کی بھی تردید کی تھی افغان سفارت کار کے ساتھ کوئی غلط رویہ اختیار کیا گیا۔

دوسری جانب افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سابق چیف رحمت اللہ نبیل نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی وفد کے دورے کا مقصد طالبان قیدیوں کے افغانستان میں موجود امریکی یونیورسٹی کے 2 پروفیسرز کے ساتھ تبادلے کے معاہدے کو حتمی شکل دینا تھا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں کابل کے دورے کا اہم مقصد قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو حتمی شکل دینا تھا جو جلد طے پاسکتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی پروفیسرز کے بدلے سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی، چچا مالی خازن زردان اور ملا نبی عمر کے بھائی حافظ راشد کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے‘۔


یہ خبر 12 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں