چین میں ایک بار پھر اپنی طرز کے منفرد نظام کا اطلاق

02 دسمبر 2019
اس پابندی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوا — اے ایف پی فوٹو
اس پابندی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوا — اے ایف پی فوٹو

چین میں اکثر ایسے اقدامات سامنے آتے ہیں جو دنیا کے لیے بالکل نئے بلکہ چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک قدم چین کی جانب سے اٹھاتے ہوئے موبائل فون سم کی خریداری کے لیے چہرے کو اسکین کرانا لازمی قرار دے دیا ہے۔

اس پابندی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوگیا ہے اور اب کوئی بھی شہری نئے موبائل یا سیلولر ڈیٹا کنکشن لینے کے لیے شناختی کارڈ کے ساتھ اپنی شناخت کے لیے فیس اسکین کو بھی جمع کرانے کا پابندی ہوگا۔

اس سے فراڈ کے امکانات کم ہوجائیں گے مگر ایسا کہا جارہا ہے کہ چینی حکومت کے لیے اس کے ذریعے لوگوں کو خاموش کرانا بھی آسان ہوجائے گا۔

اس قانون کا اعلان ستمبر میں ہوا تھا اور اب اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آن لائن دنیا میں شہریوں کے قانونی حقوق اور مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔

چین کی جانب سے پہلے ہی چہرے کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی یا فیشل ریکیکنیشن کا استعمال آبادی کے سروے کے لیے کیا جارہا ہے۔

یہ واضھ نہیں کہ فیس اسکین کو تصدیق عمل کے بعد کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا مگر امکان یہی ہے کہ اسے دیگ ڈیٹا کا حصہ بنادیا جائے گا۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

چین میں اس وقت سم کارڈ رجسٹر کرانے کے لیے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جمع کرانا پڑتا ہے، مگر اب اپنے چہرے کو اسکین کرانا ہوگا تاکہ شناختی کارڈ سے مطابقت کی تصدیق ہوسکے۔

چین کی جانب سے کافی برسوں سے ایسے قوانین کا اطلاق کیا جارہا ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر صارف اصل نام سے اس سہولت کو استعمال کرے۔

2017 میں نئے قوانین کا اطلاق کیا گیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر آن لائن مواد سے قبل صارف کی اصل شخصیت کی تصدیق ضروری قرار دی گئی۔

چین میں 2017 میں 17 کروڑ سی سی ٹی وی کیمرے ملک بھر میں نصب کیے گئے اور اس تعداد کو 2020 تک 40 کروڑ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔

اس کے علاوہ چین میں شہریوں کے لیے نیا سوشل کریڈٹ سسٹم بھی متعارف کرایا گیا جس کا مقصد ریاستی سطح پر 'اچھے یا برے' ہونے کا تعین رویوں کو مدنظر رکھ کر کرنا تھا۔

اس سوشل کریڈٹ سسٹم کو متعارف کرانے کا اعلان 2014 میں کیا گیا تھا اور حکومتی دستاویزات کے مطابق اس کا مقصد ' شہریوں پر اعتماد رکھنا زبردست جبکہ اعتماد کو توڑنا وقار کے خلاف ہے'۔

اس پروگرام کا مکمل اطلاق تو 2020 میں ہوگا مگر اب بھی اس کی آزمائش کروڑوں افراد پر ہورہی ہے اور ہر ایک کے لیے اس میں شامل ہونا لازمی ہے۔

اس وقت اس پروگرام کے کچھ حصوں کو سٹی کونسلز جبکہ دیگر کو ذاتی ڈیٹا رکھنے والی نجی ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کے ذریعے حتمی شکل دی جارہی ہے۔

2020 میں ایک بڑے قومی ڈیٹا بیس کو چہرے اور حکومتی تفصیلات کے مطابق مرتب کرکے ہر شہری کی رینکنگ کا تعین کیا جائے گا۔

چین میں گزشتہ سال ایسے سن گلاسز بھی سامنے آئے تھے جو چہرے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی سے لیس تھے جن کا مقصد جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنا تھا۔

ان سن گلاسز کی آزمائش مختلف ریلوے اسٹیشنوں میں کامیابی سے کی گئی اور ان کی مدد سے ہزاروں مسافروں کے چہرے اسکین کرکے جرائم پیشہ عناصر کو شناخت کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں