اسپیکر قومی اسمبلی کا ای سی پی کی تقرریوں کے معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ

5 دسمبر کو  چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ای سی پی غیرفعال ہوگیا— ٖٖفوٹو:  ٹوئٹر
5 دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ای سی پی غیرفعال ہوگیا— ٖٖفوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد:اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے 2 اراکین کی تقرری کے معاملے پر آج(16 دسمبر) کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعطل برقرار رہتا ہے تو اس معاملے کے حل کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسد قیصر نے بتایا کہ ’ ہم بہت پُرامید ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اور ای سی پی اراکین کے لیے امیدواروں کے ناموں پر اتفاق ہوجائے گا لیکن اگر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ عدالت لے جانے لے کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں ہے‘۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے معاملے کے حل کے لیے دی گئی 10 روزہ مدت ختم ہوگئی ہے اور اگر حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوگئے تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذاکرات میں ناکامی سے متعلق رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کروائیں گے جو مذکورہ معاملے پر فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے چیف الیکشن کمشنر اور ای سی پی کے 2 اراکین کی تقرری کا فیصلہ ایک وقت میں کرنے سے متعلق اپوزیشن کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن عہدیداران کے تقرر کا معاملہ: حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈلاک برقرار

اسد قیصر نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کےلیے ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ اپنا فیصلہ خود کرے اور معاملہ عدالت میں لے جانے سے گریز کرے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کے قریب ہیں۔

’ مفاہمت‘ سے متعلق یہ بات علم میں آئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے امیدوار کا انتخاب حکومت کے تجویز کردہ ناموں جبکہ سندھ اور بلوچستان کے ای سی پی اراکین کا انتخاب کا اپوزیشن کی فہرست سے کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ امیدواروں کے انتخاب سے متعلق اتفاق رائے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پسِ پردہ بات چیت جاری ہے۔

خیال رہے کہ 5 دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ای سی پی غیرفعال ہوگیا۔

سندھ اور بلوچستان کے ای سی پی اراکین عبدالغفار سومرو اور جسٹس (ر) شکیل بلوچ 26 جنوری کو ریٹائرڈ ہوئے تھے۔

یہ بات علم میں آئی ہے کہ حکومت نے چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی پر اپوزیشن کے اتفاق کے بدلے میں اپوزیشن کو اپنی مرضی کے 2 ای سی پی اراکین منتخب کرنے کی پیشکش کی تھی۔

علاوہ ازیں یہ سمجھا جارہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے نامز کردہ افراد میں سے ای سی پی کے 2 اراکین کی تقرری ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن میں اپوزیشن کی پوزیشن مستحکم ہوجائے گی کیونکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دوران کل 5 اراکین میں سے چیف الیکشن کمشنر سمیت ای سی پی کے موجودہ 2 اراکین کو اپوزیشن نے تعینات کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمشنر و ممبران کے تقرر کا معاملہ: رہبر کمیٹی کی حکومت کو دھمکی

نئے الیکشنز ایکٹ کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات پوری کمیشن کو منتقل ہوگئے ہیں اور ووٹوں کی اکثریت پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر کو ادھر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سہولت کاری میں حکومت اور اپوزیشن کا اجلاس ہوا تھا لیکن چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ڈیڈلاک برقرار رہا تھا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی سربراہی میں چیف الیکشن کمشنر اور ای سی پی اراکین کے تقرر کے معاملے پر تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ایک ہفتے میں تیسری مرتبہ ملتوی ہوا تھا اور اب یہ اجلاس 16 دسمبر کو ہوگا۔

دوران اجلاس حکومت کی جانب سے بابر یعقوب فتح محمد کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے پر اصرار کیا گیا، جو حکومت کے تجویز کردہ ناموں کی فہرست میں پہلا نام ہے تاہم اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کے مشاہداللہ خان نے انہیں چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کی مخالفت کی۔

اجلاس کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہداللہ خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے لیے پہلے امیدوار اس وقت سیکریٹری ای سی پی تھے جب 2018 کے انتخابات کو مبینہ طور پر دھاندلی زدہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اب تک چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کے بدلے میں اپوزیشن کو اپنی مرضی کے 2 امیدوار تعینات کرنے کی پیشکش نہیں کی۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ ’اگر ہم ان کے نام پر اتفاق کریں گے تو ہمارا بیانیہ کہیں نظر نہیں آئے گا ورنہ وہ (بابر یعقوب) معزز شخص ہیں‘۔

خیال رہے کہ آئین کی دفعہ 213 کی شق نمبر 2 حصہ الف کے تحت وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر یا سماعت کے لیے نام بھجواتا ہے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے اراکین جنوری میں ریٹائر ہوئے تھے اور آئین کے مطابق ان عہدوں پر 45 دن میں اراکین کا تقرر ہوجانا چاہیے تھا تاہم اپوزیشن اور حکومت کے اختلافات کے باعث نہ ہوسکا۔

واضح رہے کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کر کے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملے کے حل کے لیے 10 روز کی مہلت کی درخواست کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کے 2 نئے اراکین کی تعیناتی کا معاملہ پارلیمنٹ بھیجنے کا حکم

5 دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن اراکین کے تقرر کا معاملہ 10 روز میں حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ 'سمجھ نہیں آئی کہ پارلیمنٹ کے معاملے کو عدالت میں کیوں لارہے ہیں، ہمارے لیے آسان ہے کہ ہم کیس سن لیں لیکن معاملہ پارلیمنٹ کا ہے وہ خود حل کرے'۔

5 دسمبر کو ہی وزیراعظم کی جانب سے اس عہدے پر تعیناتی کے لیے بابر یعقوب، فضل عباس مکین اورعارف خان کے نام تجویز کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ بابر یعقوب فتح محمد اس وقت سیکریٹری الیکشن کمیشن کے عہدے پر کام کر رہے ہیں جبکہ فضل عباس مکین بھی سابق سیکریٹری کے طور پر مختلف وزارتوں میں کام کر چکے ہیں، تجویز کردہ تیسری شخصیت عارف خان چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے عہدے پر تعینات ہیں۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم کو ایک خط ارسال کر کے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے نام تجویز کیے تھے۔

انہوں نے وزیراعظم کو ارسال کیے گئے خط میں الیکشن کمشنر کے لیے ناصر سعید کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام کی تجویز دی تھی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں