سروسز چیفس کی مدت ملازمت سے متعلق ترامیمی بلز سینیٹ کمیٹی سے بھی منظور

چیئرمین سینیٹ نے ترامیمی بلز کو  کمیٹی برائے دفاع کو بھیج دیا تھا— فائل فوٹو:ڈان نیوز
چیئرمین سینیٹ نے ترامیمی بلز کو کمیٹی برائے دفاع کو بھیج دیا تھا— فائل فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹ ترامیمی بلز 2020 کی منظوری کے بعد انہیں سینیٹ میں پیش کردیا گیا جبکہ سینیٹ کی برائے دفاع نے بھی اس کی منظوری دے دی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع چیئرمین سینیٹر ولید اقبال کی صدارت میں ان کیمرا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جہاں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم، سیکریٹری دفاع سمیت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن، دلاور خان، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید اور سجاد حسین طوری شریک ہوئے۔

نیشنل پارٹی کے میر کبیر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود نے سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع میں شرکت نہیں کی۔

قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کی مدت ملازمت سے متعلق ترامیم کا جائزہ لینے کے بعد متفقہ طور پر تینوں بل منظور کرلیے گئے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

وزیر دفاع پرویز خٹک نے اجلاس کے بعدمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے بل متفقہ طور پر منظور کرلیا اور کسی جماعت کی طرف سے کوئی ترمیم پیش نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا سینیٹ سے بل کی منظوری کل لی جائے گی۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے میڈیا کو بتایا کہ جو بل قومی اسمبلی میں پاس ہوئے تھے ان کو منظور کرلیا گیا ہے اور یہ بل کل سینٹ میں پیش کریں گے۔

پی پی پی سینیٹر رحمٰن ملک نے اس موقع پر کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنی ترامیم واپس لے لی ہیں لیکن کچھ معاملات اٹھائے ہیں اور کے علاوہ کتابت کی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ توسیع کا معاملہ نیشنل ڈیفنس کونسل میں جائے گا اور نیشنل ڈیفنس کونسل پہلے سے ہی آگاہ ہے۔

قبل ازیں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوانِ بالا کا اجلاس منعقد ہوا تھا جہاں وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے سروسز ایکٹ میں ترامیم سے متعلق بلز پیش کیے تھے۔

اجلاس کے دوران پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)،جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی نے ترامیمی بلز کی مخالفت کی۔

چیئرمین سینیٹ نے مذکورہ ترامیمی بلز پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2020، پاکستان نیوی (ترمیمی) بل 2020 اور پاکستان ایئر فورس (ترمیمی) بل 2020 سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیج دیے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی جانب سے منظوری کے بعد مذکورہ ترامیمی بلز پر سینیٹ میں رائے شماری کی جائے گی۔

قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اہم اجلاس منعقد ہوا تھا، جہاں پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹ ترامیمی بلز 2020 کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے تھے۔

اجلاس میں وزیراعظم عمران خان بھی شریک ہوئے تھے اور اجلاس میں سروسز ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں بلز کی شق وار منظوری لی گئی تھی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین امجد علی خان نے پاکستان آرمی (ترمیمی) بل، ایئر فورس (ترمیمی) بل اور نیوی (ترمیمی) بل سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سروسز چیفس کی مدت ملازمت سے متعلق ترامیمی بلز قائمہ کمیٹی میں دوبارہ منظور

وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے بلز میں ترامیم سے متعلق تجاویز واپس لینے کی درخواست کی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی درخواست پر تینوں ترامیمی بلز پر تجاویز واپس لے لیں تھیں۔

تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع کے ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 3 جنوری کو ایوانِ زیریں میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔

آرمی ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟

پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔

اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

پیش کردہ بل کے مطابق آرمی ایکٹ میں دفعہ 8 اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف شامل کیے جائیں گے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور عمر کے حوالے سے دفعہ 8 سی کہتی ہے کہ: اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی جنرل کی مقررہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور مدت ملازمت کی کم از کم عمر کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کی مدت، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے دوران نہیں ہوگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 سال ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں ترامیم: پارلیمانی طریقہ اپنایا جائے گا تو حمایت کریں گے، بلاول بھٹو

اس عرصے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف، پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

دفعہ 8 اے (بی) کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے شرائط و ضوابط کا تعین صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے۔

اس حوالے عہدیدار کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

دفعہ 8 بی (ٹو) کے مطابق اس ایکٹ یا کسی اور قانون میں موجود مواد، کسی حکم یا کسی عدالت کے فیصلے، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، چیئرمین کی توسیع، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، یا اس سلسلے میں کسی کو تعینات کرنے کی صوابدیدی کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔

پس منظر

خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔

سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سےاگست میں جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔

بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنیٰ ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں