سروسز چیفس بلز کی تحریر نے تنازع کھڑا کردیا

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2020
آئینی دستاویز میں لفظ ’کرسکتے ہیں‘ ہمیشہ ’کریں گے‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے—تصویر: شٹر اسٹاک
آئینی دستاویز میں لفظ ’کرسکتے ہیں‘ ہمیشہ ’کریں گے‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے—تصویر: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: پارلیمان میں منظور کیے گئے سروسز چیفس کے حوالے سے بلز کے مسودے پر تنازع پیدا ہوگیا کہ کیا ان بلز میں سروسز چیفس کی دوبارہ تعیناتی یا ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں صدر کو مزید صوابدیدی اختیار دیے گئے ہیں۔

سینئر وکیل سلمان اکرم راجا نے سلسلہ وار ٹوئٹس میں یہ سوالات اٹھائے، انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آرمی، نیوی، ایئرفورس کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے موجود شق میں لفظ 'شیل(shall)' یعنی کریں گے کی جگہ’مے(may)‘ یعنی کرسکتے ہیں کا استعمال کیوں کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مثال کے طور پر آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے پاکستان آرمی ایکٹ 1958 کے ترمیمی بل کی شق 8 اے کہتی ہے کہ 'وزیراعظم کے مشورے پر صدر مملکت ایک جنرل کو 3 سال کی مدت کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں بھی آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹس ترامیمی بلز کثرت رائے سے منظور

تاہم آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا توسیع کے حوالے سے شق 8 بی میں کہا گیا کہ’اس ایکٹ یا اس وقت نافذ کسی بھی قانون میں شامل چیزوں کے باوجود صدر، وزیراعظم کے مشورے پر چیف آف آرمی اسٹاف کو 3 سال کی مدت کے لیے دوبارہ تعینات کرسکتے ہیں یا ان کی مدت ملازت میں 3 سال کی توسیع کرسکتے ہیں، اس طرح کی شرائط و ضوابط کا تعین قومی سلامتی کے امور یا اہم معاملات میں صدر، وزیراعظم کے مشورے سے کرسکتے ہیں'۔

دوسری جانب وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کےسابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے بل کے حوالے سے کسی تنازع کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی آئینی دستاویز میں لفظ ’کرسکتے ہیں‘ ہمیشہ ’کریں گے‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے اور آرمی، نیوی، ایئروفورس کے اصولوں میں ترامیم اور آئین میں کسی تضاد کی صورت میں آئین کو مقدم رکھا جائے گا۔

سلمان اکرم راجا نے اپنی ٹوئٹ میں اس شق کی نشاندہی بھی کی کہ جس کے تحت اس حوالے سے لیا گیا فیصلہ کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے اور کہا کہ مذکورہ شرط کو بھی اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ ماتحت قانون کے ذریعے اس کا دائرہ کار طے نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 48 کے تحت وزیراعظم صدر کو خط لکھ کر مشورہ دینے کے پابند ہیں اس لیے صدر کے حق میں کوئی صوابدید پیدا نہیں ہوسکتی۔

ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’بل میں کہا گیا کہ دوبارہ تعیناتی یا توسیع کے لیے تقرر کرنے والی اتھارٹی کے ذریعے صوابدید کا استعمال کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔

ان کے مطابق اس بل نے دوبارہ تعیناتی یا توسیع کو صدر کے صوابدیدی اختیار کے دائرہ کار میں صدارتی فعل بنادیا ہے، یہ بل دوبارہ تعیناتی یا توسیع کو قومی سلامتی اور دیگر ضروریات کی موجودگی سے منسلک کرتا ہے، یہ کس طرح سپریم کورٹ کی اس پٹیشن یا رٹ کو خارج کرسکتا ہے جس میں کہا گیا کہ ’صوابدید کو معروضی حقائق کی بنیاد پر استعمال نہیں کیا جاسکتا‘۔

مزید ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ صدر آئین کی دفعہ 243 کے تحت دوبارہ تعیناتی یا توسیع کے لیے دفعہ 48 کے تحت وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند ہیں جبکہ مجوزہ ترمیم سے دوبارہ تعیناتی یا توسیع کو صدر کے صوابدیدی اختیار کا معاملہ بنانا آئین کی دفعہ 243 اور 48 کی خلاف ورزی ہے۔

اس لحاظ سے سلمان اکرم راجا کے مطابق یہ قانون آئین کی خلاف ورزی ہے جسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین سید امجد شاہ نے اس بات کی تائید کی کہ اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھاری اکثریت سے منظور ہونے کی وجہ سے کوئی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سروسز چیفس کی مدت ملازمت سے متعلق ترامیمی بلز سینیٹ کمیٹی سے بھی منظور

انہوں نے کہا قانون کے تحت وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار دیا گیا ہے لیکن اتھارٹی کو منظم نہیں کیا گیا۔

امجد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب کہ سول بالادستی کا تصور ایک خواب ہی رہے گا کیوں کہ اس بات کی وضاحت کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا کہ کس صورتحال یا کونسی ضرورت کے پیشِ نظر مستقبل میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دی جاسکے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں