ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے منشور میں تبدیلی کا مطالبہ کردیا جس میں کسی بھی ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں مداخلت اور دھمکی یا طاقت کے استعمال کی ممانعت ہو۔

تہران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کی رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا نے جواد ظریف کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا جاری نہیں کیا جس کے ردعمل میں اقوام متحدہ میں تہران کے مندوب ماجد تختے رانچی نے امریکی اقدام کو عالمی معاہدے کے منافی قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جواد ظریف کا مراسلہ پڑھ کر سنایا۔

مزیدپڑھیں: ایران-امریکا کشیدگی سے افغان امن عمل متاثر نہیں ہوگا، طالبان

جواد ظریف نے اپنے مراسلے میں سلامتی کونسل کو مخاطب کر کے کہا کہ آج دنیا ایک ایسے سنگم پر ہے جہاں اقتدار پر اجارہ داریوں کے خاتمے کے ساتھ ایک غیر منظم حکومت (امریکا) وقت کا رخ موڑنے کے لیے ڈھٹائی سے دعویدار ہے۔

وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ غیر قانونی پابندیوں سمیت یکطرفہ اقدامات مسترد کردیے جائیں اور عالمی برادری متاثرہ اور ترقی پذیر ممالک کے نقصانات کی تلافی کے لیے مالی ذمہ داری قبول کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی اصولوں اور قوانین کے منافی امریکا کے یکطرفہ رویے کو مزید نقصان پہنچے گا، حالیہ دنوں میں ایک ہیرو (قاسم سلیمانی) کی ہلاکت ہوئی جو داعش جیسے دہشت گردوں کے لیے خوفناک خواب تھا۔

وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ 'نئے دور کے افتتاح (امریکی ڈرون حملے) کے بعد سے ایرانی لوگوں کے لیے خطرات اور ان پر حملے کے خدشات بڑھ گئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب داعش کے جنگی جرائم میں مزید اضافہ ہوگا اور ایران کی ہزار سالہ قدیم تہذیب کے ثقافتی ورثے کی توہین کی جائے گی۔

انہوں نے اپنے مراسلے میں سلامتی کونسل کے اراکین کو مخاطب کرکے کہا کہ 'عراق میں جس امریکی ایئربیس سے قاسم سلیمانی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا اس کے خلاف 8 جنوری کو دہشت گردی کا جواب دینے کے لیے اپنے دفاع میں متوازن حملے کیے جو منشور کے آرٹیکل 51 کے عین مطابق ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بدبخت امریکی حکومت متعدد اہم معاہدوں سے دستبردار ہوگئی جس میں پیرس معاہدہ، آئی این ایف معاہدہ اور مشترکہ جامع منصوبہ بندی کا معاہدہ شامل ہے'۔

جواد ظریف نے کہا کہ امریکا کی معاشی دہشت گردی سے عام ایرانیوں کو کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تک رسائی میسر نہیں اور ساتھ ہی امریکا ایشیا میں اپنے تیل کو اہمیت دینے کے لیے غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کا استعمال کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: پیرا ملٹری دستوں کی مظاہرین سے امریکی سفارتخانے سے نکلنے کی درخواست

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے بدنما سلوک سے کسی کو خلاصی نہیں، عالمی تجارت میں امریکا کا رویہ بطور ثبوت موجود ہے کہ جس میں یورپی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا اور انہیں اپنی قدرتی گیس کے ذخائر کے استعمال پر مجبور کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک فضائی حملے میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت دیگر افراد کو ہلاک کردیا تھا، جس کے بعد ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیر اثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔

ایران نے اس حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکا نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں