سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2020
عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چاہیں تو کل کرنل (ر) انعام الرحیم کو پیش کردیں —فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چاہیں تو کل کرنل (ر) انعام الرحیم کو پیش کردیں —فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کی حراست میں موجود کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ان کیمرہ سماعت کی درخواست پر حکومت سے تحریری جواب طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے سابق فوجی افسر کی حراست غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا جس کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

وفاقی حکومت کی درخواست پر عدالت عظمیٰ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

سماعت میں اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ یہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ ہے اس لیے انِ کیمرہ سماعت کی جائے تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست مسترد

اٹارنی جنرل نے سر بہ مہر لفافے میں انعام الرحیم کی گرفتاری کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ اس رپورٹ میں جو لکھا ہے وہ سب شائع ہوچکا ہے چیزوں کو ڈراما ٹائز نہ کریں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت انعام رحیم کی رہائی کا مختصر فیصلہ معطل کردے۔

جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا مختصر فیصلہ آیا ہے، لگتا ہے ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تفصیلی فیصلہ آنے دیں اس وقت تک عدالت کے مختصر فیصلے پر عملدرآمد کریں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرنل انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار، رہائی کا حکم

بعدازاں مقدمے کی سماعت میں وقفہ ہوا، وقفے کے بعد ہونے والی سماعت میں عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ تحریری جواب میں جواز بتایا جائے کہ قومی سلامتی کا کونسا ایشو ہے جس کی وجہ سے مقدمہ چیمبر میں سنیں؟

عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چاہیں تو کل کرنل (ر) انعام الرحیم کو پیش کردیں جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت ایڈووکیٹ کو پیش کرنے کے حکم کا دوبارہ جائزہ لے، ساتھ ہی انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ کہا کہ مقدمہ چیمبر میں سنیں۔

جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ مواد دکھائیں جس کی بنیاد پر ایسا کریں، آپ ہمیں دستاویزات دکھائیں انہیں پبلک نہیں کریں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم دستاویزات سے دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مقدمے میں کون سا قومی سلامتی کا معاملہ ہے؟

یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

اس دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قلب حسن بھی روسٹروم پر آگئے ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کا کیا معاملہ ہے ہمیں سب معلوم ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم کی تھی، قلب حسن نے کہا کہ انعام الرحیم وکیل ہیں ان کی اہل خانہ سے ملاقات بھی نہیں کروائی جارہی۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ پٹیشن پر اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ وکیل کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 اور آرمی ایکٹ 1952 کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق فوجی افسر کی حراست: وفاقی حکومت کا ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے مذکورہ الزامات کے تحت ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

دفاع اور داخلہ کے سیکریٹریز کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ تفتیش کے دوران ملزم کی رہائی کے باعث سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات متاثر ہوں گی۔

وفاقی حکومت نے زور دیا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے مختصر حکم کو معطل کرے جبکہ وفاقی حکومت کی اپیل میں مزید کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حتمی فیصلہ سنانے سے قبل وجوہات ریکارڈ کیے بغیر اسے عجلت میں سنایا۔

قبل ازیں 10 جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے وزارت دفاع کی جانب سے ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دے کر رہا کرنے کے حکم کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل مسترد کردی تھی۔

اس سے قبل 9 جنوری کو جسٹس وقاص مرزا رؤف نے سماعت میں کرنل (ر) ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔

اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں جبراً اغوا کیا۔

جس کے بعد ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف ان کے اہل خانہ نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں