کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ایپل نے چین میں دکانیں بند کردیں

اپ ڈیٹ 02 فروری 2020
ایپل کی دکانیں 9 فروری تک بند رہیں گی—فوٹو: اے پی
ایپل کی دکانیں 9 فروری تک بند رہیں گی—فوٹو: اے پی

اسمارٹ موبائل و کمپیوٹر آلات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی امریکی ملٹی نیشنل کمپنی ’ایپل‘ نے چین میں اپنی تمام دکانیں عارضی طور پر بند کردیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق ایپل نے یکم فروری کو جاری اپنے ایک بیان میں تصدیق کی کہ کمپنی نے چین میں موجود اپنی دکانیں بند کردیں۔

بیان میں تصدیق کی گئی کہ چین بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے دکانوں کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرسکتا ہے؟

کمپنی کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کے ملازمین میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم مذکورہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اس لیے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر چین دکانیں بند کردی گئیں۔

کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایپل کی تمام دکانیں 9 فروری تک بند رہیں گی۔

چین میں ایپل کی 42 دکانیں ہیں—فوٹو: اے پی
چین میں ایپل کی 42 دکانیں ہیں—فوٹو: اے پی

رپورٹ میں بتایا کہ گیا کہ ایپل کی چین بھر میں 42 بڑی دکانیں ہیں جب کہ کمپنی کے وہاں کانٹیکٹ سینٹر بھی موجود ہیں۔

امریکا اور یورپ کے بعد چین میں ایپل کی سب سے زیادہ دکانیں ہیں اور چین امریکی کمپنی کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے۔

ایپل کی جانب سے کورونا وائرس کے پیش نظر دکانیں بند کیے جانے کے بعد اب خیال کیا جا رہا ہے کہ وہاں موجود دیگر ملٹی نیشنل موبائل کمپنیاں بھی عارضی طور پر اپنی دکانیں بند کریں گی۔

ایپل سے قبل چین کی حکومت نے بھی کئی عوامی و کاروباری مقامات کو عوام کے لیے بند کردیا ہے جب کہ کئی شہروں میں ٹرانسپورٹ بھی معطل کردی گئی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو چین کا سفر کرنے سے متعلق ہدایات نامے جاری کر رکھے ہیں اور تجویز دے رکھی ہے کہ عارضی طور پر وہاں کا دورہ نہ کیا جائے۔

چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس میں دنیا بھر میں اب تک ساڑھے 14 ہزار سے زائد افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں سے 14 ہزار 400 تک افراد کا تعلق چین سے ہے۔

کورونا وائرس سے اب تک 315 تک ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں سے ایک فلپائن جب کہ باقی تمام چین میں ہوئی ہیں۔

مذکورہ وائرس گزشتہ برس دسمبر میں شروع ہوا تھا اور جنوری 2020 کے پہلے ہفتے کے بعد اس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں