تھائی لینڈ میں ڈرگ کاک ٹیل کے ذریعے کورونا وائرس کا ‘کامیاب علاج'

02 فروری 2020
تھائی لینڈ میں 19 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے—فوٹو:اے ایف پی
تھائی لینڈ میں 19 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے—فوٹو:اے ایف پی

تھائی لینڈ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ایک چینی خاتون کا علاج نزلہ اور ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے اینٹی وائرل کاک ٹیل کے ذریعے کیا گیا جس کے نتیجے میں ڈرامائی انداز میں بہتری آئی ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کی وزارت صحت کی پریس بریفنگ کے دوران ڈاکٹر کریئنگسک ایٹیپورنوانچ کا کہنا تھا کہ 71 سالہ خاتون میں وائرس مثبت آنے کے بعد ہمارے ڈاکٹرز نے ان کا علاج کیا اور 48 گھنٹے بعد نتیجہ منفی آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کوروناوائرس 48 گھنٹے بعد منفی آیا، پہلے وہ شدید پریشان تھیں لیکن 12 گھنٹے بعد وہ بستر پر بیٹھ سکیں’۔

مزید پڑھیں:چین سے باہر فلپائن میں کورونا وائرس کی پہلی ہلاکت

ڈاکٹر کریئنگسک نے کہا کہ ڈاکٹروں نے انسداد فلو ادویات کو ایچ آئی وی کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ڈرگس لوپنویر اور ریٹوناویر، اینڈی وائرل کو ملاکر نئے دوا بنائی تاہم وزارت صحت کو اس سے ثابت کرنے کے لیے تحقیقی نتائج کا انتظار ہے۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کے باعث چین سے باہر پہلی ہلاکت فلپائن میں رپورٹ ہوئی ہے جہاں 44 سالہ چینی دم توڑ گیا تھا جبکہ چین میں ہلاکتوں کی تعداد 300 سے تجاوز کرچکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں اب تک 19 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو چین کے شہر ووہان سے تھائی لینڈ پہنچے تھے اور تمام مریض زیر علاج ہیں۔

جاپان کے بعد تھائی لینڈ دوسرا ملک ہے جو چین کے باہر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے والے زیادہ مریض موجود ہے اور جاپان میں 20 افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔

تھائی لینڈ میں زیرعلاج مریضوں میں سے 8 افراد صحت یاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں جبکہ 11 افراد اب بھی ہسپتال میں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس: چین، ووہان میں پاکستانی ڈاکٹر کی رضاکارانہ خدمات پر مشکور

تھائی لینڈ کے وزیرصحت کی جانب سے جاری ایک ویڈیو کے مطابق انہوں نے ووہان سے آنے والی مریضہ کی عیادت کی جو کورونا وائرس سے صحت یاب ہوچکی ہیں اور ملاقات کے دوران خاتون نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے اپنے پیغام میں چین سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے دل ووہان میں ہیں’۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے نتیجے میں اب تک 14 ہزار افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ یہ وائرس 24 ممالک تک پھیل چکا ہے۔

نیا لاک ڈاؤن اور اموات

چین میں حکام کی جانب سے کورونا وائرس سے 45 نئی ہلاکتوں کی تصدیق کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 304 تک پہنچ گئی ہے۔

اس کے علاوہ چین میں کورونا وائرس کے مزید 2 ہزار 5 سو 90 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 14 ہزار 5 سو کے قریب پہنچ گئی ہے۔

علاوہ ازیں چین نے لوگوں کو سفر سے روکنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کیے ہیں کیونکہ وائرس باآسانی ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔

خیال رہے کہ چین نے ووہان اور اس کے ارد گرد کے شہروں کو لاک ڈاؤن کردیا ہے لیکن اس کے باوجود وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے۔

مزید پڑھیں:چین کا کورونا وائرس سے ہلاک افراد کو فوری جلانے کا حکم

علاوہ ازیں چین میں نئے قمری سال کی توسیع دی گئی چھٹیوں کا بھی آخری روز ہے جس کا مطلب ہے شہری جہازوں اور ٹرینوں سے گھر واپس لوٹنا شروع ہورہے ہیں تاہم اکثر کاروباری مقامات کم ازکم مزید ایک ہفتہ بند رہیں گے۔

چین کے صوبے ژجیانگ کے مشرقی علاقے میں 90 لاکھ افراد پر مشتمل شہر ونژو کو بند کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے جاری ہدایات کے مطابق ایک گھر کے صرف ایک رہائشی کو ہر 2 روز بعد ضروری اشیا کی خریداری کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت ہے جبکہ 46 ہائی وے ٹول اسٹیشنز بند کردیے گئے ہیں۔

اس سے قبل شہر میں سنیما اور میوزیم بند جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ معطل کی گئی تھی۔

چین کے صوبے ہوبے کے علاوہ ژجیانگ میں سب سے زیادہ 661کیسز کی تصدیق کی گئی ہے جن میں سے ونژو میں 265 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

واضح رہے کہ دو روز قبل عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال قرار دے دیا تھا اور اکثر ممالک کی جانب سے اس بیماری سے بچاؤ کے لیے غیرمعمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔

امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل نے اس وقت چین میں موجود غیر ملکی شہریوں کی آمد پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ اپنے شہریوں کو چین کے سفر سے روک دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین: کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 259 ہوگئی

منگولیا، روس اور نیپال نے اپنی زمینی سرحدیں بند کردیں جبکہ پاپوا نیو گنی نے بندرگاہوں یا ایئرپورٹس کے ذریعے ایشیا سے آنے والے افراد کی آمد پر پابندی عائد کردی۔

احتیاطی اقدامات سے وائرس کے پھیلاؤ میں سستی آئی ہے لیکن اس کا پھیلاؤ رکا نہیں ہے، برطانیہ، روس اور سویڈن نے بھی اپنے ممالک میں کورونا وائرس کے پہلے کیسز کی تصدیق کی تھی۔

چین میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 03-2002 میں سامنے آنے والی وبا سارس سے زیادہ ہے، سارس سے دنیا بھر میں 774 افراد ہلاک ہوئے تھے جن کی اکثریت کا تعلق چین اور ہانگ کانگ سے تھا۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس کے بارے میں وہ انکشافات اور تفصیلات جو اب تک ہم جان چکے ہیں

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

سارس یا مرس جیسے کورونا وائرسز آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتے ہیں، سارس وائرس 2000 کی دہائی کی ابتدا میں سامنے آیا تھا اور 8 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں 800 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

مرس 2010 کی دہائی کے ابتدا میں نمودار ہوا اور ڈھائی ہزار کے قریب افراد کو متاثر کیا جس سے 850 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں