اقوام متحدہ کی قرارداد کا مسودہ، ٹرمپ امن منصوبے میں اسرائیلی الحاق کی مذمت

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
انڈونیشیا اور تیونس کی جانب سے کونسل اراکین کو دیے گئے ڈرافٹ پر امریکا ویٹو کا اختیار استعمال کرسکتا ہے — فائل فوٹو:رائٹرز
انڈونیشیا اور تیونس کی جانب سے کونسل اراکین کو دیے گئے ڈرافٹ پر امریکا ویٹو کا اختیار استعمال کرسکتا ہے — فائل فوٹو:رائٹرز

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے مسودے میں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے حق میں امن منصوبے کے تحت مغربی کنارے پر صیہونی آباد کاریوں کے الحاق کی مذمت کی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا اور تیونس کی جانب سے کونسل اراکین کو دیے گئے مسودے پر امریکا ویٹو کا اختیار استعمال کرسکتا ہے تاہم اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے امن منصوبے پر ایک نظر مل سکتی ہے۔

سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ مسودے کی تحریر پر مذاکرات کا آغاز اس ہفتے کے آخر میں ہوگا اور فلسطینی صدر محمود عباس کونسل سے منصوبے کے بارے میں بات بھی کریں گے جو ممکنہ طور پر قرار داد پر ہونے والی ووٹنگ کے ہی دن ہوگا۔

مزید پڑھیں: او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا

قرار داد میں مقبوضہ فلسطینی سرحدوں کے الحاق کے غیر قانونی ہونے پر زور دیا گیا اور اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں کے الحاق کے حالیہ بیان کی مذمت کی گئی۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر کی جانب سے 3 سال کی مدت میں تیار کیے گئے منصوبے میں اسرائیل کی آباد کاریوں کا اعتراف کیا گیا اور فلسطینیوں سے ریاست کے لیے مشکل ترین شرائط عائد کی گئیں اور یروشلم کے مشرق میں مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں ان کا دارالحکومت ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 جنوری کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی موجودگی میں مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی گئی۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہوجائے گا'۔

فلسطین کے صدر محمود عباس نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کردیا تھا اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان

جہاں فلسطینیوں کی جانب سے اس منصوبے کو مسترد کردیا گیا ہے وہیں کئی عرب حکومتوں کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے رکے ہوئے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک آغاز فراہم کرنے کا موقع ہوگا۔

دوسری جانب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکا کی جانب سے فلسطین-اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مجوزہ منصوبے کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کو 'غدار' قرار دیتے ہوئے منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔

ترک صدر نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بعض ایسے عرب ممالک ہیں جو امریکی منصوبے کی حمایت کرتے ہیں وہ یروشلم (بیت المقدس) کے ساتھ، اپنے لوگوں کے ساتھ اور اس سے بھی اہم بات کہ پوری انسانیت کے خلاف غداری کررہے ہیں'۔

اقوام متحدہ کی قرار داد کے مسودے میں مذاکرات کے لیے بین الاقوامی و خطے کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

امریکا کی جانب سے کونسل کی سطح پر ویٹو کیے جانے کے بعد فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کے 193 رکنی جنرل اسمبلی میں مسودے کی تحریر لے جانے کا موقع ملے گا جہاں ووٹ سے معلوم ہوسکے گا کہ عالمی سطح پر ٹرمپ کا امن منصوبہ قبول کیا گیا ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں