وفاقی وزیر قانون نے سر عام پھانسی دینے کی قرارداد کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 10 فروری 2020
2 روز قبل قومی اسمبلی میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی — فائل فوٹو:اے پی پی
2 روز قبل قومی اسمبلی میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی — فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرمان کو سر عام پھانسی دینے کی کثرت رائے سے منظور ہونے والی قرارداد کی مخالفت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'سر عام پھانسی نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے بلکہ اسلامی احکامات کے بھی خلاف ہے'۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون نے 1994 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ بدترین مجرم کو بھی سر عام پھانسی دینا اس کے انسانی وقار کے خلاف اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزارت قانون کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرے گی جو نہ صرف آئین و قانون کے خلاف ہو بلکہ اسلام کے خلاف بھی ہو، اگر کسی کو اس فیصلے سے اعتراض ہے تو اسے عدالت عظمیٰ سے اس کے حکم پر نظرثانی کے لیے رجوع کرنا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی، قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور

انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح 1994 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں جسٹس شفیع الرحمٰن، جسٹس سعد سعود جان، جسٹس عبدالقدیر چوہدری اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے خصوصی عدالت کے فوری ٹرائلز ایکٹ 1992 کی دفعہ 10 میں تجویز کی گئی سر عام پھانسی کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا۔

آئین کے آرٹیکل 14(1) کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہر شخص کا وقار اور عزت نفس ناقابل تسخیر ہے اور یہ ضمانت صرف قانون کے تابع نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ہر صورتحال میں ہر شخص کا وقار ناقابل تسخیر ہے اور بدترین مجرم کی سر عام پھانسی اس شخص کے وقار کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ جب یہ کیس اٹھایا گیا تھا تو اٹارنی جنرل نے بھی سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے پالیسی کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت کے قانون میں اختیار ہونے کے باوجود سزائے موت پانے والے مجرمان کی سزا پر عمل در آمد سر عام نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب وزیر قانون کی طرح پاکستان بار کونسل کے نائب صدر عابد ساقی نے بھی قرار داد کی مذمت کی اور کہا کہ یہ نہ صرف انسانی وقار کے خلاف ہے بلکہ اس سے آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ حیرت انگیز ہے کہ قرارداد جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بھی خلاف ہے، اسے قومی اسمبلی میں حکومت سمیت اپوزیشن بینچز کے اراکین کی مخالفت کے باوجود منظور کرلیا گیا'۔

یہ بھی پڑھی: زینب الرٹ بل قومی اسمبلی سے منظور

خیال رہے کہ 2 روز قبل بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرلی گئی تھی۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذکورہ قرارداد پیش کی تھی۔

قرارداد میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم اجلاس میں اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی گئی تھی۔

پیپلزپارٹی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں مذکورہ قرارداد کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے لکھا تھا کہ یہ ظالمانہ تہذیب کے طریقوں میں سے ایک اور سنگین فعل ہے، معاشرے متوازن طریقے سے چلتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی واضح کیا تھا کہ قرارداد حکومت کی جانب سے نہیں پیش کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔

ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم میں سے اکثر اس کی مخالفت کرتے ہیں، وزارت انسانی حقوق اس کی سخت مخالفت کرتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں