’سندھ میں ایک برس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 2093 مقدمات درج ہوئے‘

اپ ڈیٹ 10 فروری 2020
108 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
108 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: پولیس کی جانب سے حال ہی میں میڈیا کو دیے گئے ڈیٹا کے بعد 31 جنوری 2019 سے لے کر 31 جنوری 2020 کے درمیان سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 2 ہزار 93 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اس میں کہا گیا کہ 7 سو 53 کیسز کی چارج شیٹ تیار کی گئی، 8 سو 63 کی تحقیقات جاری ہیں اور 7 سو 49 عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے یہ کیسز نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، خواتین کے اغوا، جنسی حملوں، ملازمت کی جگہوں پر ہراسانی، جبری مزدوری، کم عمری کی شادیوں، تیزاب گردی، چولہے سے جلنے کے حادثات، اقلیتوں پر تشدد اور مذہبی جذبات مجروح کرنے سے متعلق تھے۔

108 خواتین ’غیرت کے نام‘ پر قتل کی گئیں

پولیس ڈیٹا کے مطابق گزشتہ ایک برس میں سندھ میں ایک سو 8 خواتین نام نہاد ’غیرت کے نام‘ پر قتل کی گئیں۔

ان جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ایک سو 26 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس نے 81 مقدمات میں چارج شیٹ فائل کی، 32 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں اور 73 عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جبکہ 3 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: 'غیرت کے نام' پر بیوی کا قتل

اسی عرصے کے دوران سندھ میں لڑکیوں کی شادیوں اور اغوا کے مجموعی طور پر ایک ہزار ایک سو 58 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گئے جن میں 550 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 301 مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع کروائے گئے، 466 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ 358 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس ترجمان نے کہا کہ ان مقدمات میں سے 26 کا سراغ نہیں ملا، دیگر 20 ’جعلی‘ تھے جبکہ 249 مقدمات کو خارج کردیا گیا کیونکہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ’اغوا شدہ‘ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔

132 خواتین کا قتل

ایک برس میں سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال کی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر 132 خواتین یا لڑکیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا اور ایک سو 74 مشتبہ ملزمان گرفتار ہوئے، 87 مقدمات کے چالان درج ہوئے، 42 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں اور 75 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔

قتل کے 6 مقدمات میں پولیس شواہد تلاش نہیں کرسکی جنہیں خارج کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مرد و خاتون کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، پولیس کا دعویٰ

اسی عرصے کے دوران خواتین/لڑکیوں پر تشدد کے مجموعی طور پر ایک سو 28 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گیے جن میں سے 136 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 72 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 45 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ 64 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس ایک کیس میں شواہد تلاش نہیں کرسکی جبکہ 14 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔

صوبے کے تھانوں میں چھوٹی بچیوں پر جنسی حملوں کے 6 مقدمات رپورٹ کیے گئے تھے جن میں 11 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 4 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، ایک کیس کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ دیگر 4 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایک برس میں خواتین کے خلاف تیزاب گردی کے صرف 3 کیسز رپورٹ کیے گئے جن میں 2 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 2 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے جبکہ ایک کیس کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔

علاوہ ازیں ایک برس میں چولہے سے جلنے اور دیگر 35 کیسز رپورٹ کیے گئے اور 19 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 22 مقدمات کے چالان درج کیے گئے، 5 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ 23 کیسز عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس 3 مقدمات میں شواہد تلاش نہیں کرسکتی جبکہ دیگر 8 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔

95 خواتین کا ریپ

پولیس نے کہا کہ گزشتہ ایک برس میں 95 خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور 92 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 42 مقدمات کے چالان درج کیے گئے، 40 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں اور 37 مقدمات کیسز میں زیرِ سماعت ہیں۔

ریپ کے 3 مقدمات کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا جبکہ دیگر 5 کو خارج کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: چونیاں میں ریپ کے بعد بچوں کا قتل، ملزم 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

پولیس نے کہا کہ 7 خواتین گینگ ریپ کا نشانہ بنیں اور ان میں 9 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 4 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، دیگر 3 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔

ملازمت کی جگہ پر ہراسانی

ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک برس میں ملازمت کی جگہوں پر ہراسانی کے 35 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں37 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 15 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ 14 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔

ایک کیس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ دیگر 7 کو خارج کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 12 سالہ لڑکی کو ریپ کے بعد 80 فٹ گہرے کنویں میں پھینک دیا

پولیس نے یہ بھی کہا کہ مدرسوں اور اسکولوں سے لڑکوں پر جنسی حملوں کے 6 مقدمات بھی درج کیے گئے، ان میں 7 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 3 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور ایک کیس کا خارج کردیا گیا تھا۔

اسی طرح ’جبری مزدوری‘ کے 6 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 19 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 3 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں جبکہ 2 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ’چائلڈ لیبر‘ کے صرف 2 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 7 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔

66 بچوں کا اغوا

پولیس نے گزشتہ ایک برس میں بچوں کے اغوا کے 66 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 64 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 14 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 41 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ 17 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔

ایک مقدمے کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ دیگر 3 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔

اسی عرصے کے دوران لڑکوں پر جنسی حملوں کے 41 مقدمات درج کیے گئے، پولیس نے 58 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا، 22 کے چالان پیش کیے گئے، 18 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ عدالتوں میں 12 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

ایک کیس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ دیگر 2 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔

پولیس ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے صرف 9 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 19 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا، 5 کے چالان پیش کیے گئے، 4 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ عدالتوں میں 2 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس نے ایک برس میں لڑکوں کے ’جنسی استحصال‘ کے 39 مقدمات درج کیے، 33 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا، 26 کے چالان پیش کیے گئے، 13 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جبکہ عدالتوں میں 21 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

پولیس نے کہا کہ مذہبی جذبات مجروح کرنے سے متعلق 6 مقدمات درج کیے گئے جن میں 8 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ 4 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔

اسی طرح عبادت گاہوں میں اقلیتوں پر تشدد کے صرف 3 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 4 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ایک کیس کا چالان پیش کیا گیا جبکہ دیگر ایک مقدمے کی تحقیقات جاری ہیں۔

سزائیں

پولیس ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں قائم ماڈل کورٹس نے لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی ہدایات پر حال ہی میں قتل کے 5 ہزار 5 سو 22 اور منشیات کے 8 ہزار 9 سو 88 مقدمات میں سزائیں سنائیں۔

ان مقدمات میں پولیس کے تفتیش کاروں نے مجموعی طور پر 65 ہزار 9 سو 50 گواہان کو پیش کیا جس کی مدد سے عدلیہ کو اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں مدد ملی۔


یہ خبر 10 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں