کورونا وائرس: ووہان میں پھنسا پاکستانی طالبعلم والد کے جنازے میں شرکت تک نہ کرسکا

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

چین سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلنے والے مہلک کورونا وائرس سے جہاں مجموعی طور پر اموات کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے وہیں چین میں پھنسے ہوئے ایک پاکستانی طالبعلم اپنے والد کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کرسکے۔

چین کے شہر ووہان میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم حسن نے جمعرات کو اپنے ہاسٹل سے اپنے والد سے بات کی تھی، اس گفتگو میں ان کے 80 سالہ بزرگ والد نے کہا تھا کہ وہ گھر آجائیں۔

تاہم انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ اپنے والد سے آخری مرتبہ بات کر رہے ہیں کیونکہ اس کے الگے روز ہی حسن کے والد عارضہ قلب کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ حسن ان ایک ہزار سے زائد پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جو چین میں مہلک کورونا وائرس کے مرکزی صوبے ہوبے میں موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: چینی صدر کی کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی عیادت

ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ انہیں حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اس وقت ان کی وطن واپسی ممکن نہیں۔

تاہم اس حوالے سے حسن، جو کمپیوٹر آرکیٹیکچر میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ 'اس وقت انہیں (گھر والوں) کو ان کی ضرورت ہے، میری والدہ کو میری ضرورت ہے'۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ حسن نے اپنے اہل خانہ کی رازداری کے تحفظ کے لیے اپنا پورا نام ظاہر نہیں کیا۔

صوبہ ہوبے میں موجود دیگر پاکستانی طلبہ بھی حسن کے تحفظات کے بارے میں بتاتے ہیں جبکہ کچھ موجودہ بحران میں حکومتی ردعمل پر تنقید کر رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں بھارت اور بنگلہ دیش نے ہوبے صوبے سے اپنے شہریوں کا انخلا کرنا شروع کردیا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے ابھی اپنے شہریوں کو واپس لانے کا سلسلہ شروع نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ صوبہ ہوبے میں ہی ووہاں شہر واقع ہے جہاں سے یہ کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا اور اس کی وجہ سے اموات روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔

وہاں موجود طلبہ اور ان کے اہل خانہ تقریباً دن بھر گھر میں محصور رہتے ہیں، انہی میں سے 4 طلبہ کا کہنا تھا کہ افسردگی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے جبکہ وائرس کے خوف اور غیر یقینی صورتحال سے ان کے جذبہ کمزور ہورہا ہے جبکہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ صورتحال کب تک رہے گی۔

جہاں ایک طرف طلبہ کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اتوار کو ٹوئٹر پر کہا تھا کہ چین میں موجود میرے بہت ہی پیارے طلبہ، ہم اعلیٰ سطح پر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور مہلک کورونا وائرس سے متعلق تمام معاملات کے تناظر میں بہترین فیصلہ کریں گے۔

تاہم جب وطن واپسی کے لیے طالبعلم حسن نے بیجنگ میں سفارتخانے اور اپنی یونیورسٹی سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں جانے سے روکا، حسن کے بقول انہیں ہوبے میں چینی انتظامیہ نے کہا کہ اگر بیجنگ میں موجود سفارتخانہ ان سے رابطہ کرے تو وہ انہیں جانے کی اجازت دے سکتے ہیں تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔

رائٹرز کی جانب سے مذکورہ معاملے پر وزارت خارجہ کی ترجمان سے رابطہ کیا گیا لیکن اس پر کوئی جواب نہیں آیا۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ جو ممالک اپنے شہریوں کو واپس لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں، چین ان کے لیے متعلقہ انتظامات کرے گا اور بین الاقوامی طریقوں اور ہمارے مقامی وبائی کنٹرول کے اقدامات کے ساتھ ضروری مدد کی پیش کش کرے گا۔

حسن کہتے ہیں کہ انہیں حکام کی جانب سے پیر کو کہا گیا کہ تمام طلبہ کو نکالا جائے گا لیکن صحت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے وزیر سے ویڈیو کانفرنس کالز کے بعد ووہان میں طلبہ کا کہنا تھا کہ فوری واپسی کو مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت کی ٹیم وجوہات جاننے کیلئے چین پہنچ گئی

کچھ طلبہ کا کہنا تھا کہ حکام نے انہیں کہا تھا کہ ملک میں قرنطینہ کی ضروری سہولیات نہیں۔

تاہم ظفر مرزا کے ترجمان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وزیر صحت نے طلبہ کی فلاح و بہبور کے لیے کی گئی کال پر تشویش کا اظہار کیا تھا چینی قوانین کے مطابق اس وقت کوئی صوبہ ہوبے نہیں چھوڑ سکتا تاہم صورتحال کو مانیٹر کیا جارہا۔

اس بارے میں ووہان میں موجود ایک اور پی ایچ ڈی طالبعلم ساحل حسن کا کہنا تھا کہ 'اس کال کے بعد ہمیں حکومت سے کوئی امید نہیں کہ وہ طلبہ کو نکالیں گے'۔

انہوں کہا کہ ہم ان (حکومت) سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں