نئے کورونا وائرس کے خلاف 'ویکسین' کی آزمائش شروع

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020
اس ویکسین کی تیاری میں کام کرنے والے ایک سائنسدان — اے ایف پی فوٹو
اس ویکسین کی تیاری میں کام کرنے والے ایک سائنسدان — اے ایف پی فوٹو

برطانیہ میں سائنسدانوں نے چین سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانے والے نئے کورونا وائرس سے لوگوں کو بچانے کے لیے ویکسین تیار کرلی ہے اور اس کی آزمائش جانوروں پر شروع کردی گئی ہے۔

خیال رہے کہ منگل کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس نئے کورونا وائرس کو باضابطہ طور پر کووی ڈی۔2019 کا نام دے دیا ہے، جس میں 'کو' سے مراد کورونا، 'وی' سے مراد وائرس اور 'ڈی' سے مراد ڈیزیز ہے۔

اس سے پہلے اسے عارضی طور پر 2019 این کوو کا نام دیا گیا تھا، مگر اب اس وبا کے حوالے سے جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اسے آفیشل نام دیا گیا۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اب تک 25 ملکوں کے 42 ہزار افراد متاثر ہوچکے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امپرئیل کالج لندن کے ماہرین نے اس ویکسین کو تیار کیا ہے اور اس کا مقصد ایک ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے وائرس کی روک تھام کا موثر اور محفوظ طریقہ فراہم کرنا ہے۔

امپرئیل کالج لندن کے محقق پال میککے نے اے ایف پی کو بتایا 'اس وقت ہم اس ویکسین کو چوہوں پر آزما رہے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ہم چوہوں میں کورونا وائرس کے خلاف اس ویکسین سے ان کے خون اور اینٹی باڈی ردعمل کا تعین کرنے کے قابل ہوجائیں گے'۔

دنیا بھر میں اس نئے وائرس کی روک تھام کے لیے سائنسدان کام کر رہے ہیں تاہم امپرئیل کالج لندن کے محققین کا کہنا تھا کہ وہ اس سے واقف نہیں کہ دیگر ٹیموں کی تحقیق میں کس حد تک پیشرفت ہوچکی ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ شنگھائی یونیورسٹی میں بھی اتوار کو چوہوں میں ایک آزمائشی ویکسین کا استعمال کیا گیا، تاہم اس حوالے سے فی الحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔

یہ ذہن میں رہے کہ لیبارٹری میں ایک ویکسین کی آزمائش کا عمل کئی برس تک پہلے جانوروں اور پھر انسانوں پر کلینکل ٹرائلز کی شکل میں ہوتا ہے، جس کے بعد اس کے عام استعمال کی منظوری اس صورت میں دی جاتی ہے جب وہ محفوظ اور موثر ثابت ہو۔

مگر امپرئیل کالج لندن کے ماہرین کو توقع ہے کہ 2000 کی دہائی کے شروع میں سامنے آنے والے سارز کورونا وائرس پر ہونے والی تحقیق، اس عمل کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے میں مدد دے گی۔

پال میککے نے اس بارے میں کہا 'ہمیں سب سے پہلے انسانوں پر اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کی توقع ہے اور یہی مارا مقصد بھی ہے، جب ٹرائل کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا، جس میں چند ماہ لگ سکتے ہیں، تو اس کے فوری بعد لوگوں پر اس کی آزمائش شروع ہوسکتی ہے، جس کو مکمل ہونے میں بھی چند ماہ لگ سکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا 'اس سال کے آخر تک مکمل طور پر ٹیسٹ شدہ ویکسین لوگوں کے استعمال کے لیے دستیاب ہوسکتی ہے'۔

سائنسدانوں کو توقع ہے کہ جانوروں پر اس کی کامیاب آزمائش سے سرمایہ کاری کے حصول میں مدد ملے گی جس سے جون سے اگست کے درمیان انسانوں پر اس کا ٹرائل شروع کرنا ممکن ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ متعدد یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کے درمیان سب سے پہلے ویکسین تیار کرنے کے لیے جنگ ہورہی ہے 'درحقیقت تمام تر معلومات کو ایک دوسرے سے شیئر کیا جارہا ہے، میرا مطلب ہے کہ چینی سائنسدانوں نے فوری طور پر اس کا جینوم سیکونس تیار کرکے مفت میں دنیا بھر سے شیئر کیا، تو اسے مسابقتی فہم میں لینا تو درست نہیں، بس یہ مل جل کر آگے بڑھنے کی دوڑ ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں