پشاور ہائی کورٹ: ریٹائرمنٹ کی عمر 63 برس کرنے کا صوبائی حکومت کافیصلہ کالعدم

اپ ڈیٹ 19 فروری 2020
کے پی حکومت نے گزشتہ برس جون میں  فیصلہ کیا تھا—فوٹو:شٹر اسٹاک
کے پی حکومت نے گزشتہ برس جون میں فیصلہ کیا تھا—فوٹو:شٹر اسٹاک

پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا (کے پی) حکومت کی جانب سے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 برس کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے مدت ملازمت میں اضافے کے خلاف دائر اپیل کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے گزشتہ برس جون میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے 63 سال کرنے فیصلہ کیا تھا جس مقصد سالانہ بنیادوں پر اربوں روپے کی بچت کرنا بتایا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں بینچ نے ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے محفوظ فیصلہ سنایا اور صوبائی حکومت کو ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال مقرر کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

عدالت میں فیصلہ سناتے وقت مختصر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ کے درمیان مکالمہ ہوا۔

مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا: سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کا اضافہ

عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 60 سال سے بڑھا کر 63 سال کردی تھی جس کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ سے مکالمے کے دوران کہا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 63 سال کرنے کی سمری پنجاب کو بھیجی گئی تھی لیکن اس پر پنجاب نے عمل کیوں نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ پنجاب نہیں کر رہا ہے تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے لیکن کے پی نے کردیا جس پر چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو تجربہ گاہ بنایا ہے۔

شمائل احمد بٹ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو اس سے فائدہ ہوگا، پنشن کی مد میں جانے والی رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوگی۔

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ صرف خیبر پختونخوا کے لیے کیوں ہے، یہ پورے ملک کے لیے کیوں نہیں ہے حالانکہ آپ کے چیف سیکریٹری نے بھی اعتراض کیا ہے کہ یہ فیصلہ وقتی فائدہ دے گا لیکن تین سال بعد پھر مسئلہ ہوگا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کے سال کیا کرنا ہے یہ سیاست دانوں کا کام ہے افسر کا کام نہیں ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اعلان کیا کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

یاد رہے کہ کے پی حکومت نے 14 جون 2019 کو ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 63 برس مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے حکومت کو سالانہ 24 ارب روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے صحافیوں کو فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھارت میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں موجود ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے زائد ہے اور چند دیگر ممالک میں عمر کی حد 67 سال سے بھی زائد ہیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 240 (ب) کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بارے میں صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 50 سال مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اسے بڑھا کر 60 برس کردیا گیا تھا۔

شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اوسط عمر 1973 میں 55 برس سے بڑھ کر 2018 میں 63 سال ہوچکی ہے تقریباً 5 ہزار ملازمین ہر سال ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی شرح بھی 50 فیصد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں