امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 13 مارچ 2020
امریکی فوج کا دستہ اکتوبر 2019 میں چینی شہر ووہان کھیلوں میں شرکت کے لیے پہنچا تھا — فوٹو: اے ایف پی/ فیس بک
امریکی فوج کا دستہ اکتوبر 2019 میں چینی شہر ووہان کھیلوں میں شرکت کے لیے پہنچا تھا — فوٹو: اے ایف پی/ فیس بک

دنیا کے تقریباً نصف ممالک کو متاثر کرنے والے ’کورونا وائرس‘ سے متعلق چینی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ مذکورہ وائرس کو امریکی فوج چین کے شہر ’ووہان‘ لے کر آئی تھی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ چینی حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس‘ کو امریکا نے چین میں پھیلایا، اس سے قبل متعدد میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کرتی ہیں رہیں کہ ’امریکا نے ہی حیاتیاتی حملے کے تحت کورونا وائرس کو چین بھیجا‘ تاہم ایسی رپورٹس میں کسی بھی امریکی یا چینی عہدیدار کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔

متعدد ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر کورونا وائرس سے متعلق متعدد تھیوریز اور افواہیں موجود ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس چین اور امریکا کی پیداوار ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے بدلا لینے کے لیے ایسا کیا تاہم ایسی افواہوں پر چین اور امریکی عہدیداروں نے کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔

لیکن اب چینی محکمہ خارجہ نے امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے ایک اجلاس کی ویڈیو کو ثبوت بنا کر دعویٰ کیا ہے کہ ’دراصل کورونا وائرس کو امریکی فوج ہی چین کے شہر ووہان‘ لے کر آئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کورونا وائرس سے متعلق خوف پھیلا رہا ہے، چین

چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں امریکی سینیٹ کی ’وبائی اور پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق ذیلی کمیٹی کے اجلاس کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویڈیو سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وائرس پہلے امریکا میں رپورٹ ہوا‘۔

چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے ٹوئٹس میں امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کو امریکی صحت کے ادارے ’سینٹرس فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن‘ (سی ڈی سی) کے نمائندے رابرٹ ریڈ فیلڈ کی 2 مختصر ویڈیوز شیئر کیں جن میں وہ ذیلی کمیٹی کو امریکا میں ’انفلوئنزا‘ سے ہونے والی اموات سے متعلق آگاہ کرتے دکھائی دیئے۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق اگرچہ ویڈیوز میں رابرٹ ریڈ فیلڈ نے اعتراف کیا کہ امریکا میں ’انفلوائنزا‘ سے جو اموات ہوئیں اس وائرس کو آگے چل کر ’نوول کووڈ 19‘ کورونا وائرس کا نام دیا گیا تاہم ویڈیو سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ مذکورہ ویڈیوز کس تاریخ کی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے رابرٹ ریڈ فیلڈ کے بیان کو ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹس میں کہا کہ ’سی ڈی سی‘ کے عہدیدار نے اعتراف کیا کہ امریکا میں انفلوئنزا وائرس سے ہونے والی اموات والے وائرس کو آگے چل کر نئے کورونا وائرس کا نام دیا گیا۔

ساتھ ہی چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ سی ڈی سی کے عہدیدار تسلیم کر رہے ہیں کہ امریکا میں انفلوئنزا سے 20 ہزار اموات بھی ہوئیں اور اس سے ساڑھے 3 کروڑ تک افراد متاثر بھی ہوئے لیکن اب اس بات کو واضح کیا جائے کہ ان انفلوئنزا کیسز میں سے کتنے کیسز نئے کورونا وائرس کے تھے؟

چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں امریکا سے سوالات کیے جن میں انہوں نے امریکا سے ان تمام افراد کے نام مانگے جو امریکا میں وائرس سے متاثر ہوئے، ساتھ ہی انہوں نے ان ہسپتالوں کے نام بھی مانگے جہاں متاثرہ افراد کا علاج ہوا اور چینی ترجمان نے ان تمام افراد کی سفری تفصیلات بھی مانگ لیں۔

ساتھ ہی چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سی ڈی سی عہدیدار کی باتوں کے بعد لگتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکی فوجی چین کے شہر ووہان لے کر آئے۔

مزید پڑھیں: نیا کورونا وائرس چمگادڑ سے ہی کسی جانور اور پھر انسانوں میں آیا، تحقیق

سی این این نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دراصل امریکی فوج کے درجنوں ایتھلیٹ اکتوبر 2019 میں چینی شہر ووہان میں ہونے والی فوجی گیمز میں شرکت کے لیے گئے تھے اور ان میں سے کچھ ایتھلیٹ انفلوئنزا سے متاثر تھے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل فروری 2020 میں طبی جریدے جرنل نیچر چین کے ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی اور شنگھائی کی فودان یونیورسٹی اور چائنیئز سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ماہرین کی جانب سے کی گئی 2 تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ ’کورونا وائرس چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے شروع ہوا‘۔

تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ چین میں پھیلنے والے نئے کورونا وائرس 2000 کی دہائی میں سامنے آنے والے سارز وائرس سے ملتا جلتا نظر آتا ہے اور دونوں کا 80 فیصد جینیاتی کوڈ شیئر ہوتا ہے اور یہ دونوں چمگادڑوں کے ذریعے سے آگے بڑھے۔

کورونا وائرس کا آغاز چینی شہر ووہان سے دسمبر 2019 میں ہوا تھا—فوٹو: زنوا
کورونا وائرس کا آغاز چینی شہر ووہان سے دسمبر 2019 میں ہوا تھا—فوٹو: زنوا

تاہم دونوں تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت نہیں کیا جا سکا تھا کہ کس جانور نے نئے کورونا وائرس کو چمگادڑ سے انسانوں تک پہنچانے کا کام کیا تاہم بتایا گیا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

لیکن اب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کی ویڈیو کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’دراصل کورونا وائرس امریکی فوج ہی چینی شہر ووہان لائی تھی‘ تاہم چین کے اس بیان پر تاحال امریکا نے کوئی بیان نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کہیں جنگلی حیات کا جوابی وار تو نہیں؟

کورونا وائرس سے دسمبر 2019 کے آغاز سے 13 مارچ کی دوپہر تک دنیا بھر کے 115 سے زائد ممالک میں ایک لاکھ 28 ہزار افراد متاثر ہوچکے تھے جن میں سے 4 ہزار 700 کی موت ہوچکی تھی۔

اگرچہ اب چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے تاہم اب مذکورہ وائرس امریکا سمیت یورپی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس وقت مذکورہ وائرس سب سے زیادہ امریکا اور اٹلی میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

امریکا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 1200 کے قریب ہے جب کہ اٹلی میں مذکورہ وائرس کے مریضوں کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کی شب اسے عالمی وبا قرار دیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں حفاظتی انتطامات سخت کرتے ہوئے کھیلوں کے ایونٹس سمیت دوسرے ایونٹس، کانفرنسز، میوزک فیسٹیول اور عوامی اجتماعات کو منسوخ کردیا گیا ہے۔

اب کورونا وائرس چین کے بجائے امریکا میں تیزی سے پھیل رہا ہے—فوٹو: اے ایف پی
اب کورونا وائرس چین کے بجائے امریکا میں تیزی سے پھیل رہا ہے—فوٹو: اے ایف پی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں