پان مصالحہ بنانے والوں کو ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف اپیل کی اجازت

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2020
سندھ حکومت نے گٹکا اور مین پوری کی تیاری، مینوفیکچرنگ، سیلز اور اسٹوریج کی ممانعت ایکٹ 2019 لاگو کیا تھا—تصویر: شٹر اسٹاک
سندھ حکومت نے گٹکا اور مین پوری کی تیاری، مینوفیکچرنگ، سیلز اور اسٹوریج کی ممانعت ایکٹ 2019 لاگو کیا تھا—تصویر: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سندھ سے پان مصالحے بنانے والوں کو سندھ ہائی کورٹ کی 3 اکتوبر کو دی گئی اس ہدایت کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی جس میں عدالت عالیہ نے گٹکا فروخت کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا کہا گیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے مختلف پان مصالحے بنانے والوں کو اس صورت میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی کہ اگر وہ عدالت عالیہ کی جانب سے گٹکا اور مین پوری فروخت کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 337 اے (جان بوجھ کر نقصان پہنچانے سے متعلق) کے تحت مقدمہ درج کرنے کے فیصلے کے وقت فریق نہیں تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے فورای بعد سندھ حکومت نے گٹکا اور مین پوری کی تیاری، مینوفیکچرنگ، سیلز اور اسٹوریج کی ممانعت ایکٹ 2019 لاگو کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا گٹکا مافیا کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم عدالت میں مذکورہ کیس میں راجا حیدر علی، فیض احمد، عدنان نو اور دیگر 10 درخواست گزاروں کی نمائندگی سینئر وکیل شاہ خاور نے کی۔

مشترکہ درخواست میں سیکریٹری داخلہ سندھ، خطرے کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے چیئرمین، انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل آئی جی پی، اور سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (سیکیورٹی) کو فریقین بنایا گیا تھا۔

مذکورہ درخواست گزار مختلف ناموں مثلاً اسٹیل تمباکو پان مصالحہ، سلطان تمباکو پان مصالحہ، آر جے تمباکو پان مصالحہ، ماما تمباکو پان مصالحہ، راجِنی تمباکو پان مصالحہ، گولڈن پان مصالحہ، سپر شاہین تمباکو پان مصالحہ، اے-ون تمباکو پان مصالحہ، جے ٹی7 تمباکو پان مصالحہ، بابا گولیمار تمباکو پان مصالحہ اور بمبئی تمباکو پان مصالحہ کے نام سے پان مصالحے فروخت کرتے ہیں۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان کی بنائی اور فروخت کی جانے والی پروڈکٹ کو اتنہائی خطرناک چیز مثلاً گٹکا اور مین پوری کے مساوی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: گٹکے کی تیاری اور فروخت دہشت گردی ہے، عدالت

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان کی مصنوعات میں تمباکو ہوتا ہے لیکن اسے زہریلا نہیں کہا جاسکتا، درخواست میں حکومت کو تجویز بھی دی گئی کہ اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے ٹیسٹ بھی کرلیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ پروسیکیوشن ادارے کو پہلے سے قابلِ اطلاق قانون میں پاکستان پینل کوڈ کی اضافی کوئی بھی دفعہ شامل کرنے کی ہدایت نہیں کرسکتی۔

درخواست کے مطابق ہائی کورٹ نے پولیس کو مصنوعات بنانے والوں کے خلاف درج ایف آئی آر میں پی پی سی کی دفعہ 337-جے شامل کرنے کی ہدایت کر کے غلطی کی ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم نامے کے بعد ’قانونی تجارت اور رجسٹرڈ پروڈکٹس تیار کرنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘۔

یہ بھی دیکھیں: عدالتی احکامات کے باوجود کراچی میں 69 گٹکا فیکٹریاں تاحال فعال

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ پولیس انہیں ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے ڈرا دھمکا رہی ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ سندھ ہائی کورٹ کے 3 اکتوبر 2019 کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دیں اور عدالت عظمٰی سے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کراچی کی انتظامیہ کو گٹکا اور مین پوری کی فیکٹریز سیل کر کے اس کی تیاری اور فروخت روکنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اس قسم کی ’نقصان دہ اشیا‘ کی فروخت سے کراچی کے شہری منہ کے کینسر سمیت خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں