نئے کورونا وائرس کے حوالے سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ اس میں تغیر یا تبدیلی کی رفتار دیگر وائرسز جیسے فلو کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

یہ دعویٰ وائرس کے پھیلائو پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کیا ہے اور وائرس میں تبدیلی کی سست رفتار 2 مثبت اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔

پہلی چیز تو یہ ہے کہ یہ وائرس اپنی موجودہ حالت میں مستحکم ہے اور آگے پھیلنے پر بھی اس سے زیادہ خطرناک نہیں ہوگا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے تیار کی جانے والی ویکسین طویل المعیاد بنیادوں پر موثر ثابت ہوگی۔

یعنی بالکل خسرے یا چکن پاکس کی ویکسین کی طرح کام کرے گی جن کو ایک بار لگانے کے بعد دوبارہ ضرورت نہیں پڑتی۔

واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے مالیکیولر جینیٹیسٹ پیٹر تھلین نے بتایا کہ نئے کورونا وائرس کے ایک ہزار نمونوں کے ایک تجزیے سے انکشاف ہوا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والے وائرس اور امریکا میں شکار افراد میں موجود وائرس میں صرف 4 سے 10 جینیاتی تضاد دیکھے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وائرس میں تبدیلی کی شرح کو دیکھ کر عندیہ ملتا ہے کہ اس کے خلاف تیار ہونے والی ایک ویکسین ہی کافی رہے گی، اور فلو ویکسین کی طرح ہر سال نئی ویکسین تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تمام وائرسز میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مختلف اقسام میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

مگر نئے نوول کورونا وائرس میں بظاہر دسمبر سے اب تک کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی، چند معمولی تبدیلیاں جینوم میں ضرور ہوئی ہیں مگر وائرس ہر جگہ ویسا ہی نظر آتا ہے، جیسا ووہان میں تھا اور اس کی ہر قسم لگ بھگ یکساں ہے۔

ایڈنبرگ یونیورسٹی کے مالیکیولر بائیولوجسٹ اینڈریو رامبائوٹ نے سائنس میگزین کو بتایا کہ ایک ماہ کے دوران اوسطاً اس وائرس میں ایک سے 2 تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ رفتار فلو کے مقابلے میں 2 سے 4 گنا سست ہے۔

فریڈ Hutchinson ریسرچ سینٹر کے سائنسدان ٹریور بیڈفورڈ نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ فلو وائرس کے جینوم میں ہر 10 میں ایک بار تبدیلی آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال مختلف ممالک میں فلو سے بچائو کے لیے نئی ویکسین کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر اسٹیفن مورس نے کہا کہ مجموعی طور پر کورونا وائرسز فلو کے مقابلے میں تبدیلیاں کم آتی ہیں اور یہ نیا کورونا وائرس بھی لگتا نہیں کہ ہر سال اپنی شکل بدلے گا۔

ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے وائرلوجسٹ بنجامن نیومین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ فلو وائرس کا جینوم متعدد حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، ان تمام کوڈز کا ایک جین ہوتا ہے، جب 2 فلو وائرسز کسی ایک خلیے میں ہوتے ہیں، تو وہ کچھ چیزوں کا تبادلہ کرلیتے ہیں، جس سے فوری طور پر ایک نیا امتزاج بنتا ہے، اسی طرح سوائن فلو بھی بنا۔

اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلااف 40 سے زائد ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور امریکا میں ایک کمپنی موڈرینا کی جانب سے ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش بھی شروع کردی گئی ہے، تاہم کسی بھی ویکسین کی اگلے سال مارچ سے قبل دستیابی کا امکان بہت کم ہے۔

مگر جب ویکسین تیار ہوجائے گی تو ممکنہ طور پر ایک بار اس کا استعمال ہی کئی برس تک بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ثابت ہوگا۔

اب تک اس نئے نوول کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اس میں کچھ زیادہ تبدیلیاں دیکھنے میں نہیں آئیں، مگر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں ایسا مستقبل قریب میں نہ ہو۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشز ڈیزیز کے ڈئریکٹر انتھونی فیوسی نے کہا کہ ہم نے اب تک وائرس میں کسی قسم کی تبدیلیوں کو نہیں دیکھا، مگر ہم اس پر باریک بینی سے نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو بدل لے اور اس کے پھیلائو کا طریقہ بھی بدل جائے۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں اب تک اس وائرس کے نتیجے میں 5 لاکھ سے زائد افراد بیمار جبکہ 23 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں اس کے نتیجے میں 1198 افراد بیمار، 9 جاں بحق جبکہ 21 صحت یاب ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں