تاجر سندھ حکومت کے سست رویے پر نالاں، پیداواری یونٹس چلانے کی اجازت مانگ لی

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2020
تاجروں نے کہا کہ کارکنوں اور عملے کی تنخواہیں بھی دینی ہیں —فائل فوٹو: اے ایف پی
تاجروں نے کہا کہ کارکنوں اور عملے کی تنخواہیں بھی دینی ہیں —فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: برآمد کنندگان اور صنعت کاروں نے سندھ حکومت پر الزام لگایا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران زیر التوا شپمنٹ کو کلیئر کرانے کے لیے برآمدی شعبے کے پیداواری یونٹوں کو چلانے کی اجازت دینے میں غیرضروری تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے ٹیکسٹائل اور چمڑے کے ملبوسات برآمد کنندگان سے ایک معلوماتی فارم پر کرنے کی ہدایات کی تھی جس میں برآمدی آرڈرز، پیداواری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری عملہ، ان کی صحت، حفاظت اور ماحول کا انتظام، لاک ڈاؤن کے دوران کارکنوں کے لیے سماجی فاصلے کا طریقہ کار اور کارکنوں کی اسکریننگ کے انتظامات سمیت دیگر شامل تھیں۔

مزید پڑھیں: وزارت توانائی نے ملک میں پیٹرول کی درآمد روک دی

محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری، جنرل ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری کی زیر صدارت 25 مارچ کو کمیٹی کے اجلاس میں برآمد کنندگان کو اپنے یونٹوں کو چلانے کی اجازت دینے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ متعدد برآمد کنندگان نے صوبائی حکومت سے رجوع کیا تاکہ انہیں کچھ یونٹ چلانے کی اجازت دی جاسکے کیونکہ انہیں پہلے ہی غیر ملکی آرڈر مل چکے ہیں اور اسٹاک شپمنٹ کے لیے تیار ہیں۔

برآمد کنندگان نے حکام کو ٹرانسپورٹ اور کام کی جگہ کی حفاظت سے متعلق حکومت اور عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ نادانستہ صورتحال کے باعث مینوفیکچرز صوبائی حکومت پر الزام نہیں لگائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک کروڑ غریب افراد کو یکمشت 12 ہزار روپے وظیفہ دینے کا فیصلہ

دوسری جانب ٹیکسٹائل اور چمڑے کے برآمد کنندگان یونٹوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینے میں صوبائی حکومت کے سست رویے سے نالاں ہیں۔

پاکستانی ملبوسات فورم کے چیف کوآرڈینیٹر اور کراچی انڈسٹریل فورم کے چیئرمین جاوید بلانی نے کہا کہ انہوں نے 75 ٹیکسٹائل ایکسپورٹ یونٹ کھولنے کے لیے درخواست بھیجی لیکن صوبائی حکومت نے ان کی درخواست پر توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنی برآمدی کھیپ کو لوڈ کرنے کے لیے کم از کم 3 سے 5 دن درکار ہیں اور ساتھ ہی کارکنوں اور عملے کی تنخواہیں دے سکیں گے‘۔

مزید پڑھیں: انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 167 روپے تک پہنچ گئی

جاوید بلانی نے کہا کہ ’اگر 5 دن میں برآمدی کھیپ کو کلیئر کرنے کے بعد لاک ڈاؤن یا کرفیو نافذ کیا جاتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘۔

پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایل جی ایم ای اے) کے چیئرمین فواد اعجاز خان نے کہا کہ اٹلی، فرانس اور اسپین کو چھوڑ کر برآمدات کورونا وائرس سے پاک ممالک کو فضائی اور سمندری راستوں کے ذریعے روانہ کی جارہی ہیں۔

تاہم وزیر اعلی مراد علی شاہ کی جانب سے تجویز کی منظوری کے بعد بھی سندھ حکومت غیر ضروری طور پر برآمدی یونٹس کو اجازت دینے میں بہت زیادہ دن لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ دن سے یونٹوں کو دوبارہ کھولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی کی خبر کے اسٹاک مارکیٹ پر برے اثرات

فواد اعجاز خان نے کہا کہ برآمد کنندگان ان کارگو کو فریٹیر سروس ڈی ایچ ایل، قطر اور امارات ایئر لائنز کے ذریعے متعلقہ ممالک کو ارسال کرنے کے لیے انتظام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بشمول مشیر برائے صنعت عبدالرزاق داؤد برآمدات کا تسلسل چاہتے ہیں لیکن حکومت سندھ غیر ضروری تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔


یہ خبر 27 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں